31 جولائی، 2013

زندگی سے ڈرتے ہو۔ نجم الاصغر

شاعر: نجم الاصغر
انتخاب: مجتبیٰ ملک

زندگی سے ڈرتے ہو؟؟
تم خود اعتمادی سے کس قدر بیگانہ ہو
کیا تمہیں لڑکپن میں پیار مل نہیں پایا
آدمی کی شخصیت ، کم سنی میں بنتی ہے
عہدِ کم سنی میں گر کچھ کمی سی رہ جائے
ہے یہی علاج اسکا۔۔ عالمِ جوانی میں
اک حسین چہرے کی بے پناہ توجہ سے
پھر نئے سرے سے ہو اس کی شخصیت سازی
تم جوانِ رعنا ہو، عشق کیوں نہین کرتے؟؟
کیا فریقِ ثانی کی برتری سے ڈرتے ہو؟؟
تم بھی ہو عجب بھنورے پنکھڑی سے ڈرتے ہو
بد نصیب پروانے۔۔ روشنی سے ڈرتے ہو؟؟
حسن سبزہ زاروں کے خوشنما پرندوں میں 
حسن کھلتے پھولوں میں ، تتلیوں کے رنگوں میں
حسن مرغزاروں میں ، برق پا برق پا غزالوں میں 
ان سے تم نہیں ڈرتے۔۔۔

اک شبابِ حوا کی دلکشی سے ڈرتے ہو
ان کی سرد مہری سے بے رخی سے ڈرتے ہو
حسن سے مفر کب تک۔۔۔ حسن دل کی مجبوری
تقویٰ و مفریٰ سے عمر کب گزرتی ہے۔
زندگی کلیسا کی راہبہ نہیں کوئی
یہ کسی شبینہ کی قاریہ نہیں کوئی 
زندگی ہے ایک چنچل۔۔ بے حجاب رقاصہ 
ہاتھ تھام کے جس کا، رقص گاہِ عالم میں ۔۔
ناچتا ہے انسان۔۔۔
تم بھی اس حسینہ کو بازووں کے گھیرے میں ۔۔
لے کے بے قراری سے رقص کیوں نہیں کرتے؟؟؟
ترنگی سے ڈرتے ہو؟؟؟؟

ان سے تم نہیں ڈرتے۔۔
مولوی سے ڈرتے ہو

مذہبی جنونی کی دشمنی سے ڈرتے ہو
ہو شاعری، موسیقی، مصوری یا مجسمہ سازی
ہر لطیف فن کو وہ کافری سمجھتا ہے
تم عجب سپاہی ہو، 
رائفل کی نالی سے تم کوڈر نہیں لگتا
بانسری سے ڈرتے ہو
جس سے وہ ڈراتا ہے
تم اسی سے ڈرتے ہو
اب تو اس فسوں گر کے سحر سے نکل آئو
راگ سے تمہیں نفرت۔۔ 
رقص سے تمہیں نفرت
شعر سے تمہیں نفرت
حسن سے تمہیں نفرت
اور زندگی کیا ہے؟؟؟
یار اگر تم اہنی ہی زندگی سے ڈرتے ہو 
تو مر کیوں نہیں جاتے
خود کشی سے ڈرتے ہو؟؟؟
مکمل تحریر >>

غزل۔ جب سے تری چاہت کے سزاوار ہوئے ہیں

(مجتبیٰ ملک) 
جب سے تیری چاہت کے سزاوار ہوئے ہیں۔۔
خود اپنے لئے باعث ِآزار ہوئے ہیں۔۔

کچھ تم سناو عشق کا انجام کیا ہوا؟
ہم تو متاعِ کوچہ و بازار ہوئے ہیں۔۔

آنے کی ترے سن کے خبر، آج دفعتا۔۔
حیراں مرے گھر کے در و دیوار ہوئے ہیں۔

یاروں کی بندہ پروری، کہ اس جہان میں۔۔
جتنے کشادہ دل تھے، مرے یار ہوئے ہیں

مکمل تحریر >>

غزل۔ شدتِ ہجر سے ہے کم تلخی میں

(علی عمار یاسر)

شدتِ ہجر سے ہے کم تلخی میں 
زہر پی جیئے اور خوب جھوما جائے

بے سبب ہی ڈالئے سروں پہ خاک
گلیوں گلیوں بے سبب گھوما جائے

ہائے وہ لب! وہ شیریں لب!
بے خودی میں اپنے لبوں کو چوما جائے

مکمل تحریر >>

غزل۔ مرے قاتل ترے ادراک پہ آجاتے ہیں

(صہیب مغیرہ صدیقی)
مرے قاتل ! ترے ادراک پہ آجاتے ہیں
کیا فقط ہم ہی رہ ِ عشق ووفا جاتے ہیں؟

آنجہانی ہی سہی دل میں پڑی ہے اب تک
یہ جو خواہش ہے اسے اب‘ دفنا جاتے ہیں

مقتل ِ دیں ہے کھلا ‘ سو یونہی چلتے چلتے 
دل مرتد کو سنانوں سے سجا جاتے ہیں

کبھی مسجد‘ کبھی مند ر کا ڈراوا دے کر 
چلے آتے ہیں صنم بن کے خدا جاتے ہیں

مکمل تحریر >>

غزل۔ تمہیں مجھ سے محبت ہو رہی تھی

(عبدالروف)

تمہیں مجھ سے محبت ہو رہی تھی 
وہ جو ہو رہی تھی‘ ہوگئی کیا؟

ہمیشہ کی طرح تم نے پکارا
پکارا‘ پکار کے پھر سو گئی کیا؟

ستم کر کے بھی طعنے دے رہی تھی
مری قسمت مجھی پہ رو گئی کیا؟

اٹھا پھینکا مجھے دنیا میں جب سے
مری جنت! تو تب سے کھو گئی کیا؟

مکمل تحریر >>

دو عشق۔ فیض احمد فیض


شاعر: فیض احمد فیض
انتخاب: مجتبیٰ ملک


دو عشق
(۱)
تازہ ہیں ابھی یاد میں اے ساقیِ گلفام
وہ عکسِ رخِ یار سے لہکے ہوئے ایام
وہ پھول سی کھلتی ہوئی دیدار کی ساعت
وہ دل سا دھڑکتا ہوا امید کا ہنگام

امید کہ لو جاگا غم دل کا نصیبہ
لو شوق کی ترسی ہوئی شب ہو گئی آخر
لو ڈوب گئے درد کے بے خواب ستارے
اب چمکے گا بے صبر نگاہوں کا مقدر

اس بام سے نکلے گا ترے حسن کا خورشید
ا س کنج سے پھوٹے گی کرن رنگِ حنا کی
اس در سے بہے گا تری رفتار کا سیماب
ا س راہ پہ پھولے گی شفق تیری قبا کی

پھر دیکھے ہیں وہ ہجر کے تپتے ہوئے دن بھی
جب فکرِ دل و جاں میں فغاں بھول گئی ہے
ہر شب وہ سیہ بوجھ کہ دل بیٹھ گیا ہے
ہر صبح کی لوتیر سی سینے میں لگی ہے

تنہائی میں کیا کیا نہ تجھے یاد کیا ہے
کیا کیا نہ دلِ زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
آنکھوں سے لگایا ہے کبھی دست صبا کو
ڈالی ہیں کبھی گردنِ مہتاب میں باہیں

(۲)
چاہا ہے اسی رنگ میں لیلائے وطن کو
تڑپا ہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں
ڈھونڈی ہے یونہی شوق نے آسائشِ منزل
رخسار کے خم میں کبھی کاکل کی شکن میں

ا س جانِ جہاں کو بھی یونہی قلب و نظر نے
ہنس ہنس کے صدا دی، کبھی رو رو کے پکارا
پورے کیے سب حرفِ تمنا کے تقاضے
ہر درد کو اجیالا، ہر اک غم کو سنوارا

واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا
تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی
خیریتِ جاں، راحتِ تن، صحتِ داماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی

اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پسِ زنداں، کبھی رسوا سرِ بازار
گرجے ہیں بہت شیخ سرِ گوشہَ منبر
کڑکے ہیں بہت اہلِ حکم برسرِ دربار

چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اس عشق، نہ ا س عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے ، اس دل میں بجز داغِ ندامت

مکمل تحریر >>

غزل۔ انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے

شاعر: افتخار عارف
انتخاب: علی عمار یاسر


انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے
یہ چاہتے تھے مگر کس کے نام پر رہتے

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون تھے کہ اپنے گھر رہتے

پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے
پر اپنے ہم شجروں سے تو باخبر رہتے

بس ایک خاک کا احسان ہے کہ خیر سے ہیں
وگرنہ صورت خاشاک در بدر رہتے

میرے کریم ! جو تیری رضا، مگر اس بار
برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے

مکمل تحریر >>

ابھی یہ خواب مت دیکھو۔ خالد بن حامد

شاعر : خالد بن حامد
انتخاب: صہیب مغیرہ صدیقی


ابھی زنجیر پا ہیں آرزوئیں‘ حسرتیں لاکھوں
ابھی رستے کا پتھر ہیں طلب کی کلفتیں لاکھوں
ابھی ہونٹوں پہ سیرابی کی شادابی نہیں آئی
ابھی آنکھوں میں سچے دکھ کی بے خوابی نہیں آئی
ابھی لہجے میں دلسوزی کا ویرانہ نہیں آیا
ابھی تک درد کی صورت کا افسانہ نہیں آیا
ابھی تک ہیں اسی کے خواب میں ڈوبی ہوئی آنکھیں
ابھی تک ہیں شب ِ غرقاب میں ڈوبی ہوئی آنکھیں
ابھی تک مہر ِ عالم تاب کی ہیں منتظر آنکھیں 
ابھی تک ہیں اسی کی روشنی پر منحصر آنکھیں
ابھی تک رنگِ راحت سے تہی ہیں سینکڑوں سپنے
ابھی تک قرب ِ وحدت سے تہی ہیں سینکڑوں سپنے
ابھی تسکین والفت کے لیے اک لمحہِ راحت 
مری جاں ! سینکڑوں صدیوں کی دوری پر ہے یہ جنت
ابھی زنجیر پا ہوں میں ‘ ابھی زنجیر پا ہو تم
مجھے دل سے یقیں ہے مجھ سے بے حد باوفا ہو تم 
مگر اس تشنہ خواہش کو زیرِ اب مت دیکھو 
خلش تازہ کوئی ڈھونڈو‘ ابھی یہ خواب مت دیکھو
ابھی یہ خواب مت دیکھو‘ ابھی یہ خواب مت دیکھو

مکمل تحریر >>

غزل۔ دل ہوا جب سے شرمسارِ شکست

شاعر : نامعلوم
انتخاب: عبدالرئوف

دل ہوا جب سے شرمسار ِ شکست
بن گئے دوست پرسا، دارِ شکست
ہر کوئی سرنگوں ہے لشکر میں 
ہر کسی کو ہے انتظارِ شکست
کہہ رہی ہے تھکن دلیروں کی 
اب کے چمکے گا کاروبارِ شکست
آئینے کی فضا تو اجلی تھی
مرے چہرے پہ ہے غبار شکست
کامرانی کا گر سکھا مجھ کو
یا عطا کر مجھے وقار ِ شکست
موت فتح وظفر کی منزل
زندگانی ہے رہگزارِ شکست
اسکے چہرے پہ فتح رقصاں تھی 
اس کے شانے تھے زیرِ بارِ شکست
مکمل تحریر >>

رودادِ محفل۔۔۔ 28 جولائی 2013

28 جولائی، 2013 ء          اتوار        18 رمضان المبارک
نہ جانے کیوں آج غوری صاحب نے موبائل پر رائتے کا مطالبہ کر دیا۔ یعنی کہ اگر چہ ہم جانتے ہیں کہ رائتہ بھی بلا شبہ انسانی خوراک ہے ، مگر یہ بوتل اور رائتے کا کچھ میل نہیں بنتا۔خیر، ہماری نیت درست بھی ہوتی تو بھی نارسائی اپنی ہی تقدیر تھی: ہجویری ہوٹل بند تھا۔ مزید برآں، ہم تین ( روﺅف ‘ وقاص اور میں ) اپنے کل اثاثے ملا کر بھی خالی مینائے مئے دورِ جدید نہیں لاسکتے تھے ‘ سو یہ رائتہ تو کافی دور کا ڈھول تھا۔ سکول کی چھت پر پہنچے تو یکلخت دل اچھل کر حلق میںآگیا۔ کرسیوں کے درمیان پڑے چوڑے سے بنچ پر ایک ڈونگے میں بریانی رکھی تھی ، جس میں کثرت سے شامی ٹکیاں بھی موجود تھی۔ وہ بھی ذائقے میں ایسی کہ میں پل صراط پر بھی نہ مانوں کہ جلالپور پیر والہ کی کسی ریڑھی پر ایسی شامیاں بھی ملتی ہیں۔تما م لوازمات و غیر لوازمات پر ہاتھ صاف کر چکے تو پتہ چلا کہ یہ جناب ِ غوری صاحب کے اپنے ہاتھوں سے بنی نادر اشیا ئے خورد تھیں۔
بات کا آغاز ہی واقعات(یا بقول علی۔۔ واہ یات) سے ہوا۔ غوری صاحب نے آج کسی کو نہ بخشا ۔ ایک بار وقاص سے مخاطب ہوئے کہ جناب آپ کی قوم کیا ہے۔ وقاص نے بتایا کہ گھلو ہے ۔ اس کے فوراََ بعد غوری صاحب یوں گویا ہوئے ۔” ایک تھا گھلو۔۔“ یہ سننا تھا کہ وقاص اپنی نشست سے اٹھا اور محفل سے دور ‘ افق کے اس پار جا کے بیٹھ گیا۔اس کی منت سماجت کر کے بلایا کہ چلیں ایک گھلو نہیں بلکہ ایک غوری تھا۔ اس معاہدے پر (کہ جو وہ ایک تھا وہ غوری تھا) وقاص صاحب محفل میں آ کر بیٹھے۔ غوری صاحب اپنے واقعے کی طرف مڑے ۔” ایک غوری تھا، ایک بار وہ تانگے پر جا رہا تھا کہ کہیں سے اسکا ایک گھلو دوست مل گیا۔“ خیر ملا جلا کر غوری صاحب نے وقاص کو تو اتنا نہ دھویا۔ البتہ رﺅف کے دل میں ایک تجسس ڈال دیاکہ غوری صاحب کو ملنے والے بابے کی گٹھڑی میں کیا تھا؟؟ (اس کا جواب جاننے کے لیے رابطہ کیجیے جناب غوری صاحب سے)
بہر حال، انتخاب کی بات چلی۔رﺅف نے آج بڑا ہی جاندار انتخاب پیش کیا ۔ ایسا جاندار کہ ہر ہر شعر پر واہ واہ بلند ہوتی رہی۔

دل ہوا جب سے شرمسار ِ شکست
بن گئے دوست پرسا، دارِ شکست
ہر کوئی سرنگوں ہے لشکر میں 
ہر کسی کو ہے انتظارِ شکست
کہہ رہی ہے تھکن دلیروں کی 
اب کے چمکے گا کاروبارِ شکست
آئینے کی فضا تو اجلی تھی
مرے چہرے پہ ہے غبار شکست
کامرانی کا گر سکھا مجھ کو
یا عطا کر مجھے وقار ِ شکست
موت فتح وظفر کی منزل
زندگانی ہے رہگزارِ شکست
اسکے چہرے پہ فتح رقصاں تھی
اس کے شانے تھے زیرِ بارِ شکست
غزل بلا شبہ منفرد تخیل پر مبنی تھی۔ بے حد لطف دے گئی۔ رﺅف کی ذاتی لغت استعمال کریں تو بے شمار ”تحسانے“ امڈ پڑے۔
اس کے بعد وقاص مغیرہ اقبال نے انتخاب کے لیے شاعر کا اعلان کیا،”محسن نقوی“ ۔۔۔ اسکے ساتھ ہی دو ایک دردناک صدائیں بلند ہوئیں”ہائے“۔
وقاص نے محسن نقوی کی مشہور زمانہ اور آزاد نظم ‘ چلو چھوڑو‘ پیش کی۔

محبت جھوٹ ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بے کار لوگوں کا
طلب سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
خلش دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
چلو چھوڑو
کب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانسوں کی ضربوں پہ
چاہت کے بنا رکھ کر سفر کرتا رہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تم بھی موسم کے ساتھ پیرہن کے رنگ بدلو گے
چلو چھوڑو
میرا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے
تم اپنے خل و خلود کو آئینے میں پھر بکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے ایک نیا موسم اتار دو
میرے بکھرے خوابوں کو مرنے دو
پھر نیا مکتوب لکھو
پھر نئے موسم، نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
میرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
میری یادوں کے کچے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
محبت جھوٹی ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بیکار لوگوں کا
انتخاب بلا شبہ عمدہ تھا۔ بہت سراہا گیا۔ اس کے بعد مسکین راقم کی جانب سے ” خالد بن حامد“ کی درج ذیل نظم پیش کی گئی۔

ابھی زنجیر پا ہیں آرزوئیں‘ حسرتیں لاکھوں
ابھی رستے کا پتھر ہیں طلب کی کلفتیں لاکھوں
ابھی ہونٹوں پہ سیرابی کی شادابی نہیں آئی
ابھی آنکھوں میں سچے دکھ کی بے خوابی نہیں آئی
ابھی لہجے میں دلسوزی کا ویرانہ نہیں آیا
ابھی تک درد کی صورت کا افسانہ نہیں آیا
ابھی تک ہیں اسی کے خواب میں ڈوبی ہوئی آنکھیں
ابھی تک ہیں شب ِ غرقاب میں ڈوبی ہوئی آنکھیں
ابھی تک مہر ِ عالم تاب کی ہیں منتظر آنکھیں 
ابھی تک ہیں اسی کی روشنی پر منحصر آنکھیں
ابھی تک رنگِ راحت سے تہی ہیں سینکڑوں سپنے
ابھی تک قرب ِ وحدت سے تہی ہیں سینکڑوں سپنے
ابھی تسکین والفت کے لیے اک لمحہِ راحت 
مری جاں ! سینکڑوں صدیوں کی دوری پر ہے یہ جنت
ابھی زنجیر پا ہوں میں ‘ ابھی زنجیر پا ہو تم
مجھے دل سے یقیں ہے مجھ سے بے حد باوفا ہو تم 
مگر اس تشنہ خواہش کو زیرِ اب مت دیکھو 
خلش تازہ کوئی ڈھونڈو‘ ابھی یہ خواب مت دیکھو
ابھی یہ خواب مت دیکھو‘ ابھی یہ خواب مت دیکھو
انتخاب پر اچھی داد ملی۔اب علی عمار یاسر کی جانب منہ کیا ۔ وہاں سے صدائے افتخار عارف بلند ہوئی۔

انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے
یہ چاہتے تھے مگر کس کے نام پر رہتے

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون تھے کہ اپنے گھر رہتے

پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے
پر اپنے ہم شجروں سے تو باخبر رہتے

بس ایک خاک کا احسان ہے کہ خیر سے ہیں
وگرنہ صورت خاشاک در بدر رہتے

میرے کریم ! جو تیری رضا، مگر اس بار
برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے
اس غزل کے ہر شعر پر داد نہ ملنا ممکن ہی نہ تھا۔ اس کے بعد مجتبیٰ ملک صاحب‘ قبلہ وکعبہ ِ محفل کی جانب رجوع کیا۔ آپ نے ایک عدد پر لطف گھونٹ بھرا‘ اور کرسی سے سر ٹکا کر بولے، ”فیض“!
فیض صاحب ہم سب کو بے حد پسند ہیں۔ مگر مجتبیٰ صاحب سے فیض کی شاعری سن کر جو سماں بندھتا ہے‘ فیض سے عشق ہو جاتا ہے۔ اج انہوں نے فیض کی مشہور ِ زمانہ نظم” دو عشق“ سنانے کا فیصلہ کیا۔ عنوان لینے پر ہی حاضرین ِ محفل نے قبلہ و کعبہ کو نہ صرف دل کھول کر داد دی بلکہ اس کے لیے شکریہ بھی ادا کیا۔ 
دو عشق
(۱)
تازہ ہیں ابھی یاد میں اے ساقیِ گلفام
وہ عکسِ رخِ یار سے لہکے ہوئے ایام
وہ پھول سی کھلتی ہوئی دیدار کی ساعت
وہ دل سا دھڑکتا ہوا امید کا ہنگام

امید کہ لو جاگا غم دل کا نصیبہ
لو شوق کی ترسی ہوئی شب ہو گئی آخر
لو ڈوب گئے درد کے بے خواب ستارے
اب چمکے گا بے صبر نگاہوں کا مقدر

اس بام سے نکلے گا ترے حسن کا خورشید
ا ±س کنج سے پھوٹے گی کرن رنگِ حنا کی
اس در سے بہے گا تری رفتار کا سیماب
ا ±س راہ پہ پھولے گی شفق تیری قبا کی

پھر دیکھے ہیں وہ ہجر کے تپتے ہوئے دن بھی
جب فکرِ دل و جاں میں فغاں بھول گئی ہے
ہر شب وہ سیہ بوجھ کہ دل بیٹھ گیا ہے
ہر صبح کی لوتیر سی سینے میں لگی ہے

تنہائی میں کیا کیا نہ تجھے یاد کیا ہے
کیا کیا نہ دلِ زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
آنکھوں سے لگایا ہے کبھی دست صبا کو
ڈالی ہیں کبھی گردنِ مہتاب میں باہیں

(۲)
چاہا ہے اسی رنگ میں لیلائے وطن کو
تڑپا ہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں
ڈھونڈی ہے یونہی شوق نے آسائشِ منزل
رخسار کے خم میں کبھی کاکل کی شکن میں

ا ±س جانِ جہاں کو بھی یونہی قلب و نظر نے
ہنس ہنس کے صدا دی، کبھی رو رو کے پکارا
پورے کیے سب حرفِ تمنا کے تقاضے
ہر درد کو اجیالا، ہر اک غم کو سنوارا

واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا
تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی
خیریتِ جاں، راحتِ تن، صحتِ داماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی

اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پسِ زنداں، کبھی رسوا سرِ بازار
گرجے ہیں بہت شیخ سرِ گوشہَ منبر
کڑکے ہیں بہت اہلِ حکم برسرِ دربار

چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اس عشق، نہ ا ±س عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے ، اس دل میں بجز داغِ ندامت
پوری نظم کا ایک ایک شعر لطف انگیز رہا ۔ یار لوگوں نے اسے بعینہ ویسے سنا جیسے نیا نیا کالج جانے والا بچہ پہلی بار شیلا کے جوان گانے سن رہا ہو۔ 
تخلیقات کی باری آئی۔ آج روﺅف نے بہت ہی شاندار غزل پیش کی۔ یہ جون ایلیا کے انداز میں تھی اور جان کی ہی ایک غزل کی بحر میں لکھی گئی تھی۔

تمہیں مجھ سے محبت ہو رہی تھی 
وہ جو ہو رہی تھی‘ ہوگئی کیا؟

ہمیشہ کی طرح تم نے پکارا
پکارا‘ پکار کے پھر سو گئی کیا؟

ستم کر کے بھی طعنے دے رہی تھی
مری قسمت مجھی پہ رو گئی کیا؟

اٹھا پھینکا مجھے دنیا میں جب سے
مری جنت! تو تب سے کھو گئی کیا؟

اچھی غزل تھی، بہت سراہی گئی۔ وقاص نے کل کے عندیے پر آج کچھ نہ پیش کیا ۔ میں نے اپنی ایک نامکمل غزل آج ہی مکمل کی تھی ‘ وہی پیش کر دی۔
مرے قاتل ! ترے ادراک پہ آجاتے ہیں
کیا فقط ہم ہی رہ ِ عشق ووفا جاتے ہیں

آنجہانی ہی سہی دل میں پڑی ہے اب تک
یہ جو خواہش ہے اسے اب‘ دفنا جاتے ہیں

مقتل ِ دیں ہے کھلا ‘ سو یونہی چلتے چلتے 
دل مرتد کو سنانوں سے سجا جاتے ہیں

کبھی مسجد‘ کبھی مند ر کا ڈراوا دے کر 
چلے آتے ہیںصنم بن کے خدا جاتے ہیں
اچھی خاصی داد سمیٹی ۔علی عمار یاسر کی طرف سے یہ اشعار وارد ِ محفل ہوئے۔

شدتِ ہجر سے ہے کم تلخی میں 
زہر پی جیئے اور خوب جھوما جائے

بے سبب ہی ڈالئے سروں پہ خاک
گلیوں گلیوں بے سبب گھوما جائے

ہائے وہ لب! وہ شیریں لب!
بے خودی میں اپنے لبوں کو چوما جائے
جواں غزل تھی، جوانوں کو بڑی بھائی۔
مجتبیٰ صاحب نے آج بھی بڑی عمدہ تخلیق پیش کی۔
جب سے تیری چاہت کے سزاوار ہوئے ہیں۔۔
خود اپنے لئے باعث ِآزار ہوئے ہیں۔۔

کچھ تم سناو ¿ عشق کا انجام کیا ہوا؟
ہم تو متاعِ کوچہ و بازار ہوئے ہیں۔۔

آنے کی ترے سن کے خبر، آج دفعتا۔۔
حیراں مرے گھر کے در و دیوار ہوئے ہیں۔

یاروں کی بندہ پروری، کہ اس جہان میں۔۔
جتنے کشادہ دل تھے، مرے یار ہوئے ہیں

اس شاندار غزل کا آخری شعر اس محفل کے یاروں کے نام تھا۔ اس کے ساتھ ہی اگلی رات تک کے لیے محفل برخاست ہو گئی۔

صہیب مغیرہ صدیقی
 جولائی28 ..  2013

مکمل تحریر >>

30 جولائی، 2013

جب لگے زخم تو قاتل کو دعا دی جائے ~ جانثار اختر

شاعر: جانثار اختر
انتخاب: وقاص مغیرہ اقبال

جب لگے زخم تو قاتل کو دعا دی جائے
ہے یہی رسم تو یہ رسم اٹھا دی جائے

تشنگی کچھ تو بجھے تشنہ لب غم کی
اک ندی درد کے شہروں میں بہا دی جائے

دل کا وہ حال ہوا ہے غم دوراں کے تلے
جیسے اک لاش چٹانوں میں دبا دی جائے

ہم نے انسانوں کے دکھ درد کا حل ڈھونڈ لیا ہے
کیا برا ہے جو یہ افواہ اڑا دی جائے

ہم کو گزری ہوئی صدہاں تو نہ پہچانیں گی
آنے والے کسی لمحے کو صدا دی جائے

پھول بن جاتی ہیں دہکتے ہوئے شعلے کی لویں
شرط یہ ہے کہ انہیں خوب ہوا دی جائے

کم نہیں نشے میں جاڑے کی گلابی راتیں
اور اگر تیری جوانی بھی ملا دی جائے

ہم سے پوچو غزل کیا ہے غزل کا فن کیا ہے
چند لفظوں میں کوئی آہ چھپا دی جائے
مکمل تحریر >>

سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں ~ احمد فراز

شاعر: احمد فراز
انتخاب:وقاص مغیرہ اقبال

سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں‌کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے حشر ہیں‌اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں‌کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں‌اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں

وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں

بس اک نگاہ سے لوٹا ہے قافلہ دل کا
سو رہ روان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے شبستاں سے متُّصل ہے بہشت
مکیں‌ اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں

کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

کہانیاں ہی سہی ، سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

اب اس کے شہر میں‌ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں‌
مکمل تحریر >>

میں جرم خموشی کی صفائی نہیں دیتا ~ انور مسعود

شاعر: انور مسعود
انتخاب: وقاص مغیرہ اقبال

میں جرم خموشی کی صفائی نہیں دیتا
ظالم اسے کہیے جو دہائی نہیں دیتا

کہتا ہے کہ آواز کو یہیں چھوڑ کے جاؤ
میں ورنہ تمہیں اذن رہائی نہیں دیتا

چرکے بھی لگ جاتے ہیں دیواربدن پر
اور دست ستمگر بھی دکھائی نہیں دیتا

آنکھیں بھی ہیں، رستہ بھی، چراغوں کی ضیا بھی
سب کچھ ہے مگر کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا

اب اپنی زمیں چاند کی مانند ہےانور
بولیں تو کسی کو بھی سنائی نہیں دیتا
مکمل تحریر >>

چلو چھوڑو ~ محسن نقوی


شاعر: محسن نقوی
انتخاب: وقاص مغیرہ اقبال

عہدٍ وفا شغل ہے بے کار لوگوں کا
طلب سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
خلش دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
چلو چھوڑو
کب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانسوں کی ضربوں پہ
چاہت کے بنا رکھ کر سفر کرتا رہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تم بھی موسم کے ساتھ پیرہن کے رنگ بدلو گے
چلو چھوڑو
میرا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے
تم اپنے خل و خلود کو آئینے میں پھر بکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے ایک نیا موسم اتار دو
میرے بکھرے خوابوں کو مرنے دو
پھر نیا مکتوب لکھو
پھر نئے موسم، نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
میرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
میری یادوں کے کچے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
محبت جھوٹی ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بیکار لوگوں کا
مکمل تحریر >>

29 جولائی، 2013

غزل ۔ مرے دشمن کی نئی گھات پہ خاک

(غلام مجتبیٰ ملک) 

مرے دشمن کی نئی گھات پہ خاک
دورِ الفت کے واقعات پہ خاک

مرے کاسے میں فقط حسرت ہے
دستِ دولت تری اوقات پہ خاک

ترے ماتھے پہ شکن آئی تھی
بندہ پرور! تری خیرات پہ خاک

التجائیں قبول تک نہ گئیں
مری حالت، مرے حالات پہ خاک
مکمل تحریر >>

غزل ۔۔ کوئی اداسی سرِ تبسم چھپی ہوئی سی مہک رہی ہے

(صہیب مغیرہ صدیقی)

کوئی اداسی سرِ تبسم، چھپی ہوئی سی مہک رہی ہے
اجاڑ راتوں میں سرد سانسیں ، فسردگی کہ چہک رہی ہے

مرے محلے کی جھونپڑی میں ، بھوک سے کل چل بسا وہ
کہ جس کے مالک کے کئی مربعوں میں زرد گندم لہک رہی ہے

ہر ایک "میں " نے بہت کمایا، وطن کو لوٹا ،حرام کھایا
مرے ہی نالہِ احتسب سے زمیں ہے اب کہ دہک رہی ہے

خراب حالوں کے مرگھٹوں پہ، کتنے لاشے کہ بے کفن ہیں
کہ جن کے سر کے قریب بیٹھی نسل نئی اک سسک رہی ہے
مکمل تحریر >>

مشکل

 (صہیب مغیرہ صدیقی)

سنا ہے تلخی ایام سے لاچار ہوچکے 
برباد ہو چکے ‘ وہ بے زار ہو چکے 
گر یوں ہے 
تو بے تشنہ و آباد کیوں نہ ہم
سرِ عام کوئی ہجر کا ازالہ کر چلیں
بڑی مشکل سے ‘ اپنے دل سے 
ہمیں نکالا تو کیوں نہ ہم
مر کر ذرا مشکل میں اور اضافہ کر چلیں

مکمل تحریر >>

رودادِ محفل۔27 جولائی 2013


    2013، ہفتہ  ،جولائی27
 
آ ج کی رات ہماری ہنسی کے نام۔۔۔ آج کی رات ہم یاروں کے قیلولہ کے نام۔۔ آج کی رات غوری صاحب کے ذوق مزاح                       کے نام۔۔۔ آ ج کی رات دل نا کردہ کار کو مجبوراََ کہنا پڑا کہ بس
مسکین کو پرسوں کے جرمانے کے عوض بوتلوں کا انتظام خود کرنا پڑا ، سو کیا۔روﺅف کو پکڑا۔ شومئی قسمت وقاص        خود ہی آن پہنچا، کچھ ہی دیر میں یہ مختصر گروہ بیت المال کے سکول جا پہنچا۔دروازہ پیٹا۔ غوری صاحب دروازے تک تشریف لائے ہی تھے کہ وقاص مغیرہ اقبال صاحب کے دل میں خدا جانے کیا آئی۔دروازے کا ہینڈل پکڑ کر جھول گیا۔ اب دروازے پر زور اس قدر پڑا کہ صاحب اندر سے کھینچ کھینچ کر تھک گئے مگر مجال ہے جو کھل جائے۔ خیر ، بھلے وقتوں کی نیکیاں کام آئیں ، وقاص نے خود ہی دروازے پر گرفت ڈھیلی کر دی۔اندر داخل ہوئے۔مرشدین و قبلتین کو سلام عرض کیا، مجتبیٰ صاحب کی جیب سے دس روپے برآمد کر کے عاجز ہی برف لینے باہر گیااور ہمیشہ کی طرح مظلوم روﺅ ف ہی گلاس دھوکر لایا۔کچھ ہی دیر میں علی بھی آن پہنچا ۔ آج قہقہوں کی رعنائی ہی عجیب تھی۔آغاز سے پہلے ہی بات بات پرقہقہے گونج رہے تھے۔ موسم کا مزاج بھی شاید نرالا تھا۔ مئے دورِ جدید کی مقدار بھی زیادہ تھی۔ اسی سحر زدہ ماحول میں انتخاب روﺅف سے محفل نے آغاز پکڑا۔انہوں نے مرزا غالب کا انتخاب کیا ،راحت کی آواز میں گائی جانے والی غالب صاحب کی معروف دو غزلوں کے اشعارپیش کر دئیے۔اشعار کا حسن اپنی طرف، روﺅف صاحب نے جس طرح اپنی ہنستی آواز میں گا کر سنایالطف ہی آگیا۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال ِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا
یہ مسائل ِ تصوف، یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
اس کے بعد جب ”کوئی امید بر نہیں آتی “ کا ترنم شروع ہوا تو تمام معززان ِ محفل نے باجماعت ہو کر پروفیشنلز کی طرح تالیاں(بلکہ واضح طور پر کہوں تو”تاڑیاں“) پیٹنی شروع کر دیں۔بس صاحب! وہ سماں بندھا کہ واہ
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال ِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
موت کا اک دن معین ہے 
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاﺅ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
وقاص کی باری آئی ۔صاحب ذرا سا کھانسے‘ انتخاب کے لیے اعلان فرمایا، ''نواز دیوبندی ''۔۔اور پھر کچھ یوں گویا ہوئے۔
وہ رلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
جب میں رو کر مسکرایا دیر تک
خود بخود بے ساختہ میں ہنس پڑا
اس نے اس درجہ رلایا دیر تک
بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
گنگاتا جا رہا تھا ایک فقیر
دھوپ رہتی ہے نہ سایہ دیر تک
کل اندھیری رات میں میری طرح
ایک جگنو جگمگایا دیر تک
غزل کا تخیل عمدہ تھا ۔ بے حد مزا آیا۔
یہاں پہنچ کر اچانک غوری صاحب نے استفہام کیا،”آپ میں سب صحت مند حضرات ہیں، روزے سب کے سب کس نے رکھے ہیں؟؟؟“ محض علی ہی ایسا مرد مجاہد تھا جس نے تمام کے تمام روزے رکھے تھے ۔ بڑے اعتماد سے سینے پر ہاتھ رکھ کر اعلان کیا۔بس!   
 لو اپنے آ پ دام میںصیاد آگیا                                                       
اس کے بعد کے واقعات کو پیش کرنا کافی مشکل ہے ۔ کانٹ چھانٹ کی جائے تو لطف ختم ہو جائے گا، نہ کی جائے تو قارئین کا اخلاق۔۔۔۔۔ جب علی نے روزے کا حل” قیلولہ “ بتایا تو غوری صاحب کی طرف سے ایک عدد خطرناک دستی واقعہ پیش ہو گیا۔ اس کے بعد قہقوں کا وہ طوفان شروع ہوا کہ جسے روکنا کسو کے بس میں نہ تھا۔ قیلولہ کی طبی اور طبعی فضائل گنتے گنتے آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ دوست پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنستے رہے۔یار لوگوں نے قیلولہ کی تعریف ہی بدل دی۔ یہاں پر تفصیلات نہ لکھنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
ذرا دیر کے بعد جب حالت کچھ کہنے کی حالت میں آئے تو مجھ سے انتخاب طلب کیا ۔ میں نے اقبال کی بال جبریل کی معروف نظم پیش کر دی۔
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں 
آب وگل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں 
کارواں تھک کر گضٓ کے پیچ وخم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں 
بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم 
اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں 
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تما
 اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں 
کہہ گئیں رازِ محبت پردہ داریہائے شوق
تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ راہرو کی صدائے دردناک 
جس کو آوازِ رحیل کاروں سمجھا تھا میں
اس کے بعد علی کی طرف مڑے ۔ شاعر کے نام کا اعلان ہوا،” مصطفی زیدی“ اور پھر جب نظم کا عنوان گونجا تو تو نظم پیش ہونے سے پہلے ہی شور مچ گیا۔نظم کا عنوان تھا  ”آخری بار ملو“۔
آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوے دل
راکھ ہو جائیں ،کوئی اور تمنا نہ کریں
چاکِ وعدہ نہ سلے،زخمِ تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے ،شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آ کر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوءامید تو آنکھیں چھن جائیں

ا ±س ملاقات کا اس بار کوءوہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و ج ±نوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدیدِ وفا کا نہ شکایات کا وقت
ل ±ٹ گءشہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ
اب جو کہنا ہو تو کیسے کوءنوحہ کہیے
آج تک تم سے رگِ جاں کا کءرشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے

پھر نہ دہکیں گے کبھی عارضِ و ر ±خسار ملو
ماتمی ہیں دَمِ رخصت در و دیوار ملو
پھر نہ ہم ہوں گے ،نہ اقرار،نہ انکار،ملو
آخری بار ملو۔

محفل عش عش کر اٹھی۔ انتخاب ہی ایسا تھا۔ اس کے بعد مجتبیٰ صاحب کی باری آئی۔ آپ نے اب کی بار ایک نہایت مترنم اور منفرد سی آزاد نظم پیش کی، جو اب تک ان کے لہجے میں کانوں میں گونج رہی ہے۔
کوک میرے دل کوک
ہر سینے کونے چار
ہر کونے درد ہزار
ہر درد کا اپنا وار
ہر وقت کی اپنی مار
تیرے گرد و پیش ہجوم
کئی سورج چاند نجوم
ہر جانب چیخ پکار
تیری کوئی سنے نہ ہوک
کبھی کوک میرے دل کوک
ہر سینے آنکھیں سو
ہرآنکھ کی اپنی لو
پر پوری پڑے نہ ضو
کبھی پھوٹ سکی نہ پو
تیرے صحن اندھیرا گ ±ھپ
تیری اللہ والی چ ±پ
تیری مٹی ہو گئے جو
تیری کون مٹائے بھوک
کبھی کوک میرے دل کوک
ہر سینے سو سو جنگ
تیری سانس کے رستے تنگ
تیرا نیلا پڑ گیا رنگ
لمحوں کے خنجر تیز
ہر دھار اذیت خیز
تیرا نازک اِک اِک انگ
تیرا اِک اِک تار ملوک
کبھی کوک میرے دل کوک
لطف ہی آگیا۔
اس کے بعد تخلیقات کا دور چلا۔آغاز ہمیشہ کی طرح عبد الرﺅف سے ہوا۔اب کی بار رﺅف نے بڑے خوبصورت انداز میں ایک ہی شعر پیش کیا۔

باری آئی وقاص مغیرہ اقبال کی ۔ جناب والا کی طرف سے درج ذیل آزاد نظم پیش ہوئی۔

تمہاری تصویر دیکھی ہے
آنکھوں میں نمی اور منجمد چہرہ
میں نے اداسی کو تمہارےچہرے پر رقص کرتے دیکھا ہے
ہاں! میں نے تمہاری اداس تصویر کو دیکھا ہے
کیوں؟ آخر کیوں۔۔؟؟
اسی لئے چھوڑا تھا نا؟؟
کہ میں تمہیں خوش نہیں رکھ سکتا،
سو ! چھوڑ دیا تم نے، منہ موڑ دیا تم نے
جب اپنی مرضی کر ہی لی تو پھر یہ اداسی؟
یہ افسردہ سا چہرہ اور چشم نم تمہاری آج؟
میں جی تو رہا ہوں نا!
اب میں گھٹ گھٹ کے بھی نہیں جی سکتا؟
معاف کرنا، مگر میں خدا نہیں کہ بے حس و غافل دیکھتا رہوں
نہیں میری جان نہیں ایسے نہ کرو
تمہاری وہ دل گیر مسکراہٹ،
شوخ مزاج، الہڑسی،وہ حسن بے حساب،چنچل اور پھر وہ تمہارے گال پہ قاتل ، تل
اف خدایا!
تم تواوروں کو اداس کیا کرتی تھی اور آج خود؟؟
جانتی ہو تمہارے چھوڑ جانے پر ، بہت کھویا بہت رویا
پھر ایک دن ڈھونڈنے نکل پڑا،
کسی ایسے کو کہ اسے دیکھ کر اپنا غم بھول جائے
جانتی ہو مجھے کیا ملا؟؟
دنیا! ہاں میری جان دنیا ملی مجھے
جابجا بے کفن و لاوارث لاشیں،جابجا بکتے جسم،
خون میں لتھڑے ہوئے ،کٹے پھٹے جسم،
آنسو، یتیم بچے،نام غیرت پہ قتل،حوس کے پجاری،
انسان انسان کا خونی، اور ان سب کے ذمہ دار!
فراعین وقت۔۔۔۔
دن میں کئی بار مرتا ہوں مگر میری جاں!
تمہای وہ افسردہ تصویر!!! ایسی کہ اس سے بڑا کوئی درد نہیں 
پھر دیکھی تو شاید موت کے مرنے تک مر جاو ¿نگا
خدارا خوش رہا کرو! خدارا خوش رہا کرو!

  جناب کے بعد مسکین کی کرسی تھی ، مسکین نے اپنے پرانے سٹاک سے ایک مختصر سی آزاد نظم” مشکل“ پیش کر دی۔

سنا ہے تلخی ایام سے لاچار ہوچکے 
برباد ہو چکے ‘ وہ بے زار ہو چکے 
گر یوں ہے 
تو بے تشنہ و آباد کیوں نہ ہم
سرِ عام کوئی ہجر کا ازالہ کر چلیں
بڑی مشکل سے ‘ اپنے دل سے 
ہمیں نکالا تو کیوں نہ ہم
مر کر ذرا مشکل میں اور اضافہ کر چلیں

ایک ذرا روایتی سی داد کی ٹوکری اٹھا کر دل میں ڈالی اور آگے جناب علی عمار یاسر کی طرف رخ کیا۔ اب کے علی ایک چھوٹی سی فکاہیہ تحریر لکھ لائے تھے۔تحریر پڑھ کر جم کے ہنسے۔ مگر تحریر کورا مزاح نہیں تھی ۔ اس میں بھی ایک لمحہ ِ فکریہ نظرمل گیا تھا۔ مگر مزاح کا عنصر غالب تھا۔کہیں ہلکے نشتر کے ساتھ چھوٹے چھوٹے طنز، خوب لطف دے گئے مثلاََ لکھتے ہیں۔
” دیوانِ غالب ڈیڑھ دو سو میں بآسانی مل جاتا ہے۔اس سے سستا تو فی زمانہ ضمیر ہی ہے۔“
اسی طرح،کم عمری میں کتابوں سے تعلق جڑ جانے پر دوسرے بچوں کو کمال تاسف سے دیکھتے ہوئے جو خود پر طنز مارا ہے وہ بہت بڑا کمال ہے۔ایک اپنے ہم عمر کو سائیکل چلاتے دیکھا۔ اس پر لکھتے ہیں:
”دائیں ہاتھ سے جانگیہ کھینچا اور بایاں ہاتھ ناک پر رکھ کر سرڑ رڑ رڑرڑ کی اور دل میں سوچا کہ ابھی بچہ ہے۔ ایک دو کتابیں پڑھ لے تو سائیکل وائیکل بھول جائےگا۔“
ادباءکی ان کی زندگی میں نا قدری اور بعد از وفات ہاتھوں ہاتھ بکری پر بڑا خوبصورت جملہ جوڑا:
”دو چار روز ہم اہلِ ہنر بھی جی لیں ، اگر یہ لفظ ہماری حیات میں ہی بک جائیں۔“
علی کو بے حد داد ملی ۔ہنسی کے چھوٹتے فوارے بجائے خود دلیل تھے کہ علی نے شاندار لکھا ہے۔
جناب قبلہ و کعبہ ‘ مجتبیٰ ملک صاحب نے معذر ت کے ساتھ ایک زیر تکمیل نظم کا پہلا جملہ ہی پیش کیا
،
میرے عزیزو!
ہماری چپ نے نجانے کتنی ہی سرگوشیوں کو 
گرج کا درجہ عطا کیا ہے۔

آج ایک نیا کمال ہوگیا۔ آج غوری صاحب نے اپنے دو اشعار پیس کیے۔ ہم نے آج تک غوری صاحب کو محض چچا غالب کا زبردستی کا ہمزاد ہی سمجھا تھا، جن پر گاہےبگاے واہیات کا الہام پوتا رہتا ہے۔ مگر۔۔۔ اب کے انہوں نے درج ذیل اشعار پیش کر دیے۔۔

                        اے خدا تیری سخاوت کا جب بھی ذکر چلا
نکلنا خلد سے آدم کا بہت یاد آیا

اور ابھی اس شعر پر ستایشی جملے ختم نہیں ہوئے تھے کہ ایک اور شعر پیش ہوا۔۔۔

سزا کے طور پر بھیجا گیا ہوں دنیا میں
منتظر ایک سزا اور ابھی باقی ہے۔۔

یار لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ غوری صاحب کے تخیل کا صحیح ادراک آج ہوا تھا۔
اس کے ساتھ ہی محفل برخاست ہوگئی۔گھر پہنچتے ہی روداد لکھنا چاہتا تھا ۔مگر بڑے بھائی صاحب نے اپنے آمرانہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سسٹم پر پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین کھیلا جانے والاٹی ٹونٹی میچ دیکھنے کا اعلان کیا۔ نتیجتاََکل کی روداد بھی آج ہی لکھ رہا ہوں۔
صہیب مغیرہ صدیقی
جولائی 29 ۔۔۔ 2013


مکمل تحریر >>
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

Blogroll