31 جولائی، 2013

رودادِ محفل۔۔۔ 28 جولائی 2013

28 جولائی، 2013 ء          اتوار        18 رمضان المبارک
نہ جانے کیوں آج غوری صاحب نے موبائل پر رائتے کا مطالبہ کر دیا۔ یعنی کہ اگر چہ ہم جانتے ہیں کہ رائتہ بھی بلا شبہ انسانی خوراک ہے ، مگر یہ بوتل اور رائتے کا کچھ میل نہیں بنتا۔خیر، ہماری نیت درست بھی ہوتی تو بھی نارسائی اپنی ہی تقدیر تھی: ہجویری ہوٹل بند تھا۔ مزید برآں، ہم تین ( روﺅف ‘ وقاص اور میں ) اپنے کل اثاثے ملا کر بھی خالی مینائے مئے دورِ جدید نہیں لاسکتے تھے ‘ سو یہ رائتہ تو کافی دور کا ڈھول تھا۔ سکول کی چھت پر پہنچے تو یکلخت دل اچھل کر حلق میںآگیا۔ کرسیوں کے درمیان پڑے چوڑے سے بنچ پر ایک ڈونگے میں بریانی رکھی تھی ، جس میں کثرت سے شامی ٹکیاں بھی موجود تھی۔ وہ بھی ذائقے میں ایسی کہ میں پل صراط پر بھی نہ مانوں کہ جلالپور پیر والہ کی کسی ریڑھی پر ایسی شامیاں بھی ملتی ہیں۔تما م لوازمات و غیر لوازمات پر ہاتھ صاف کر چکے تو پتہ چلا کہ یہ جناب ِ غوری صاحب کے اپنے ہاتھوں سے بنی نادر اشیا ئے خورد تھیں۔
بات کا آغاز ہی واقعات(یا بقول علی۔۔ واہ یات) سے ہوا۔ غوری صاحب نے آج کسی کو نہ بخشا ۔ ایک بار وقاص سے مخاطب ہوئے کہ جناب آپ کی قوم کیا ہے۔ وقاص نے بتایا کہ گھلو ہے ۔ اس کے فوراََ بعد غوری صاحب یوں گویا ہوئے ۔” ایک تھا گھلو۔۔“ یہ سننا تھا کہ وقاص اپنی نشست سے اٹھا اور محفل سے دور ‘ افق کے اس پار جا کے بیٹھ گیا۔اس کی منت سماجت کر کے بلایا کہ چلیں ایک گھلو نہیں بلکہ ایک غوری تھا۔ اس معاہدے پر (کہ جو وہ ایک تھا وہ غوری تھا) وقاص صاحب محفل میں آ کر بیٹھے۔ غوری صاحب اپنے واقعے کی طرف مڑے ۔” ایک غوری تھا، ایک بار وہ تانگے پر جا رہا تھا کہ کہیں سے اسکا ایک گھلو دوست مل گیا۔“ خیر ملا جلا کر غوری صاحب نے وقاص کو تو اتنا نہ دھویا۔ البتہ رﺅف کے دل میں ایک تجسس ڈال دیاکہ غوری صاحب کو ملنے والے بابے کی گٹھڑی میں کیا تھا؟؟ (اس کا جواب جاننے کے لیے رابطہ کیجیے جناب غوری صاحب سے)
بہر حال، انتخاب کی بات چلی۔رﺅف نے آج بڑا ہی جاندار انتخاب پیش کیا ۔ ایسا جاندار کہ ہر ہر شعر پر واہ واہ بلند ہوتی رہی۔

دل ہوا جب سے شرمسار ِ شکست
بن گئے دوست پرسا، دارِ شکست
ہر کوئی سرنگوں ہے لشکر میں 
ہر کسی کو ہے انتظارِ شکست
کہہ رہی ہے تھکن دلیروں کی 
اب کے چمکے گا کاروبارِ شکست
آئینے کی فضا تو اجلی تھی
مرے چہرے پہ ہے غبار شکست
کامرانی کا گر سکھا مجھ کو
یا عطا کر مجھے وقار ِ شکست
موت فتح وظفر کی منزل
زندگانی ہے رہگزارِ شکست
اسکے چہرے پہ فتح رقصاں تھی
اس کے شانے تھے زیرِ بارِ شکست
غزل بلا شبہ منفرد تخیل پر مبنی تھی۔ بے حد لطف دے گئی۔ رﺅف کی ذاتی لغت استعمال کریں تو بے شمار ”تحسانے“ امڈ پڑے۔
اس کے بعد وقاص مغیرہ اقبال نے انتخاب کے لیے شاعر کا اعلان کیا،”محسن نقوی“ ۔۔۔ اسکے ساتھ ہی دو ایک دردناک صدائیں بلند ہوئیں”ہائے“۔
وقاص نے محسن نقوی کی مشہور زمانہ اور آزاد نظم ‘ چلو چھوڑو‘ پیش کی۔

محبت جھوٹ ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بے کار لوگوں کا
طلب سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
خلش دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
چلو چھوڑو
کب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانسوں کی ضربوں پہ
چاہت کے بنا رکھ کر سفر کرتا رہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تم بھی موسم کے ساتھ پیرہن کے رنگ بدلو گے
چلو چھوڑو
میرا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے
تم اپنے خل و خلود کو آئینے میں پھر بکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے ایک نیا موسم اتار دو
میرے بکھرے خوابوں کو مرنے دو
پھر نیا مکتوب لکھو
پھر نئے موسم، نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
میرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
میری یادوں کے کچے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
محبت جھوٹی ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بیکار لوگوں کا
انتخاب بلا شبہ عمدہ تھا۔ بہت سراہا گیا۔ اس کے بعد مسکین راقم کی جانب سے ” خالد بن حامد“ کی درج ذیل نظم پیش کی گئی۔

ابھی زنجیر پا ہیں آرزوئیں‘ حسرتیں لاکھوں
ابھی رستے کا پتھر ہیں طلب کی کلفتیں لاکھوں
ابھی ہونٹوں پہ سیرابی کی شادابی نہیں آئی
ابھی آنکھوں میں سچے دکھ کی بے خوابی نہیں آئی
ابھی لہجے میں دلسوزی کا ویرانہ نہیں آیا
ابھی تک درد کی صورت کا افسانہ نہیں آیا
ابھی تک ہیں اسی کے خواب میں ڈوبی ہوئی آنکھیں
ابھی تک ہیں شب ِ غرقاب میں ڈوبی ہوئی آنکھیں
ابھی تک مہر ِ عالم تاب کی ہیں منتظر آنکھیں 
ابھی تک ہیں اسی کی روشنی پر منحصر آنکھیں
ابھی تک رنگِ راحت سے تہی ہیں سینکڑوں سپنے
ابھی تک قرب ِ وحدت سے تہی ہیں سینکڑوں سپنے
ابھی تسکین والفت کے لیے اک لمحہِ راحت 
مری جاں ! سینکڑوں صدیوں کی دوری پر ہے یہ جنت
ابھی زنجیر پا ہوں میں ‘ ابھی زنجیر پا ہو تم
مجھے دل سے یقیں ہے مجھ سے بے حد باوفا ہو تم 
مگر اس تشنہ خواہش کو زیرِ اب مت دیکھو 
خلش تازہ کوئی ڈھونڈو‘ ابھی یہ خواب مت دیکھو
ابھی یہ خواب مت دیکھو‘ ابھی یہ خواب مت دیکھو
انتخاب پر اچھی داد ملی۔اب علی عمار یاسر کی جانب منہ کیا ۔ وہاں سے صدائے افتخار عارف بلند ہوئی۔

انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے
یہ چاہتے تھے مگر کس کے نام پر رہتے

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون تھے کہ اپنے گھر رہتے

پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے
پر اپنے ہم شجروں سے تو باخبر رہتے

بس ایک خاک کا احسان ہے کہ خیر سے ہیں
وگرنہ صورت خاشاک در بدر رہتے

میرے کریم ! جو تیری رضا، مگر اس بار
برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے
اس غزل کے ہر شعر پر داد نہ ملنا ممکن ہی نہ تھا۔ اس کے بعد مجتبیٰ ملک صاحب‘ قبلہ وکعبہ ِ محفل کی جانب رجوع کیا۔ آپ نے ایک عدد پر لطف گھونٹ بھرا‘ اور کرسی سے سر ٹکا کر بولے، ”فیض“!
فیض صاحب ہم سب کو بے حد پسند ہیں۔ مگر مجتبیٰ صاحب سے فیض کی شاعری سن کر جو سماں بندھتا ہے‘ فیض سے عشق ہو جاتا ہے۔ اج انہوں نے فیض کی مشہور ِ زمانہ نظم” دو عشق“ سنانے کا فیصلہ کیا۔ عنوان لینے پر ہی حاضرین ِ محفل نے قبلہ و کعبہ کو نہ صرف دل کھول کر داد دی بلکہ اس کے لیے شکریہ بھی ادا کیا۔ 
دو عشق
(۱)
تازہ ہیں ابھی یاد میں اے ساقیِ گلفام
وہ عکسِ رخِ یار سے لہکے ہوئے ایام
وہ پھول سی کھلتی ہوئی دیدار کی ساعت
وہ دل سا دھڑکتا ہوا امید کا ہنگام

امید کہ لو جاگا غم دل کا نصیبہ
لو شوق کی ترسی ہوئی شب ہو گئی آخر
لو ڈوب گئے درد کے بے خواب ستارے
اب چمکے گا بے صبر نگاہوں کا مقدر

اس بام سے نکلے گا ترے حسن کا خورشید
ا ±س کنج سے پھوٹے گی کرن رنگِ حنا کی
اس در سے بہے گا تری رفتار کا سیماب
ا ±س راہ پہ پھولے گی شفق تیری قبا کی

پھر دیکھے ہیں وہ ہجر کے تپتے ہوئے دن بھی
جب فکرِ دل و جاں میں فغاں بھول گئی ہے
ہر شب وہ سیہ بوجھ کہ دل بیٹھ گیا ہے
ہر صبح کی لوتیر سی سینے میں لگی ہے

تنہائی میں کیا کیا نہ تجھے یاد کیا ہے
کیا کیا نہ دلِ زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
آنکھوں سے لگایا ہے کبھی دست صبا کو
ڈالی ہیں کبھی گردنِ مہتاب میں باہیں

(۲)
چاہا ہے اسی رنگ میں لیلائے وطن کو
تڑپا ہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں
ڈھونڈی ہے یونہی شوق نے آسائشِ منزل
رخسار کے خم میں کبھی کاکل کی شکن میں

ا ±س جانِ جہاں کو بھی یونہی قلب و نظر نے
ہنس ہنس کے صدا دی، کبھی رو رو کے پکارا
پورے کیے سب حرفِ تمنا کے تقاضے
ہر درد کو اجیالا، ہر اک غم کو سنوارا

واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا
تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی
خیریتِ جاں، راحتِ تن، صحتِ داماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی

اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پسِ زنداں، کبھی رسوا سرِ بازار
گرجے ہیں بہت شیخ سرِ گوشہَ منبر
کڑکے ہیں بہت اہلِ حکم برسرِ دربار

چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اس عشق، نہ ا ±س عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے ، اس دل میں بجز داغِ ندامت
پوری نظم کا ایک ایک شعر لطف انگیز رہا ۔ یار لوگوں نے اسے بعینہ ویسے سنا جیسے نیا نیا کالج جانے والا بچہ پہلی بار شیلا کے جوان گانے سن رہا ہو۔ 
تخلیقات کی باری آئی۔ آج روﺅف نے بہت ہی شاندار غزل پیش کی۔ یہ جون ایلیا کے انداز میں تھی اور جان کی ہی ایک غزل کی بحر میں لکھی گئی تھی۔

تمہیں مجھ سے محبت ہو رہی تھی 
وہ جو ہو رہی تھی‘ ہوگئی کیا؟

ہمیشہ کی طرح تم نے پکارا
پکارا‘ پکار کے پھر سو گئی کیا؟

ستم کر کے بھی طعنے دے رہی تھی
مری قسمت مجھی پہ رو گئی کیا؟

اٹھا پھینکا مجھے دنیا میں جب سے
مری جنت! تو تب سے کھو گئی کیا؟

اچھی غزل تھی، بہت سراہی گئی۔ وقاص نے کل کے عندیے پر آج کچھ نہ پیش کیا ۔ میں نے اپنی ایک نامکمل غزل آج ہی مکمل کی تھی ‘ وہی پیش کر دی۔
مرے قاتل ! ترے ادراک پہ آجاتے ہیں
کیا فقط ہم ہی رہ ِ عشق ووفا جاتے ہیں

آنجہانی ہی سہی دل میں پڑی ہے اب تک
یہ جو خواہش ہے اسے اب‘ دفنا جاتے ہیں

مقتل ِ دیں ہے کھلا ‘ سو یونہی چلتے چلتے 
دل مرتد کو سنانوں سے سجا جاتے ہیں

کبھی مسجد‘ کبھی مند ر کا ڈراوا دے کر 
چلے آتے ہیںصنم بن کے خدا جاتے ہیں
اچھی خاصی داد سمیٹی ۔علی عمار یاسر کی طرف سے یہ اشعار وارد ِ محفل ہوئے۔

شدتِ ہجر سے ہے کم تلخی میں 
زہر پی جیئے اور خوب جھوما جائے

بے سبب ہی ڈالئے سروں پہ خاک
گلیوں گلیوں بے سبب گھوما جائے

ہائے وہ لب! وہ شیریں لب!
بے خودی میں اپنے لبوں کو چوما جائے
جواں غزل تھی، جوانوں کو بڑی بھائی۔
مجتبیٰ صاحب نے آج بھی بڑی عمدہ تخلیق پیش کی۔
جب سے تیری چاہت کے سزاوار ہوئے ہیں۔۔
خود اپنے لئے باعث ِآزار ہوئے ہیں۔۔

کچھ تم سناو ¿ عشق کا انجام کیا ہوا؟
ہم تو متاعِ کوچہ و بازار ہوئے ہیں۔۔

آنے کی ترے سن کے خبر، آج دفعتا۔۔
حیراں مرے گھر کے در و دیوار ہوئے ہیں۔

یاروں کی بندہ پروری، کہ اس جہان میں۔۔
جتنے کشادہ دل تھے، مرے یار ہوئے ہیں

اس شاندار غزل کا آخری شعر اس محفل کے یاروں کے نام تھا۔ اس کے ساتھ ہی اگلی رات تک کے لیے محفل برخاست ہو گئی۔

صہیب مغیرہ صدیقی
 جولائی28 ..  2013

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

Blogroll