24 جولائی، 2013

انسان یا راجہ گدھ


بانو قدسیہ جی نے انسان کو   راجہ گدھ پکارا ہے۔ ٹھیک پکارا ہے۔ بالکل ٹھیک پکارا ہے۔آخر بانو جی کے تجربے کو کون چلنج کر سکتا ہے۔ انسان وہ گدھ ہے کہ جسکو کھانے کانوالہ نہ ملے تو اپنی ہی اولاد کاگوشت پوست کھا لیتا ہے، اولاد مطلب اپنا آپ کھا لیتا ہے؛ پیاس لگنے پر اپنے بھائیوں کا خون پی لیتا ہے؛  عزت کھو دے تو دوسروں کی عزت اسکی آنکھ میں نہیں جچتی؛ عزت مل جائے تو دوسروں کیلئے عزت کے معیار بڑھا دیتا ہے؛  یہ ہے گدھ! راجہ گدھ! ۔ اسے گھن نہیں آتی۔  اسے گھن نہیں آتی کہ اسے تو جینا ہے۔  اگر اسے خوشی نہ ملے تو دوسرو ں کی اولاد کے آنسوؤ ں کو بلاوا دیتا ہے؛ اور یہ وہی انسان نما گدھ ہے جو اپنے اندر زبردستی کا جنسی ہیجان پیدا کر کے تڑپتا ہے اور پھر خوداسے کم کرنے کیلئے بنت آدم کو اپنی حوس کا نشانہ بنا تا ہے۔  بنت حوا سے مراد زینت حسن بازار سمیت ماں، بہن، بیٹی، خالہ، پھپھی، ممانی، بیوی اور  خالہ زاد، پھپھی زاد، ممانی زاد بھی ہے۔ اور پھر اسی عورت کو نسبتاً کم عقل سمجھتا ہے۔ تو کیا اپنے ہی گوشت (بنت حوا) کو حوس کا نشانہ بنانا عقل ظاہر کرتا ہے؟ کیا یہ   ’گدھ‘اپنے نام کے ساتھ ’راجہ‘ لگا کر یہ سمجھتا ہے کہ اسے عزت و توقیر مل گیئ؟

1 تبصرے:

علی احمد جان نے لکھا ہے کہ

بالکل درست فرمایا جناب ۔ بہت خوب

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

Blogroll