24-7-2013 بدھ 15 رمضان المبارک
آج جب خواب کی دستک پر دروازہ کھلا تو مجتبیٰ ملک کے مسکراتے چہرے کی بجائے جناب غوری صاحب کے ہنستے چہرے کی زیارت ہوئی ۔ سکول میں قدم رنجہ فرمانے والے صاحبان میں مجھ سمیت ‘ عبدالرووف‘ وقاص مغیرہ اقبال اور شہزاد ریاض بھی تھے۔( شہزاد ریاض کا آج محفل میں پہلا دن تھا)۔ خیر، غوری صاحب ہمیں چھوڑ چلے۔ ( ٹھہریے۔۔۔ غلط سمت میں مت جائیے۔ وہ کچھ دیر کے لیے کام سے باہر گئے تھے)۔چھت پر پہنچنے ہی گفتگو کا مرکزو محور ہمارے بلاگ کی ٹمپلیٹ رہا۔قرآئن ودلائل آتے رہے۔ نقائص و فضائل ابلتے رہے۔ مگر حتمی فیصلہ نہ ہو پایا۔ ( تاہم محفل کے اختتام تک اس کا جمہوری حل یہ نکالا کہ فیس بک پر جس ٹمپلیٹ کے زیادہ لائکس ہونگے وہی منتخب کی جائے گی۔)آج محفل کا باقاعدہ آغاز ”مئے دورِ جدید“ (کوکاکولا) کے بغیر کرنا پڑا۔ ایسا نہیں کہ حاضرین حضرات میں کسر نفسی عود آئی تھی ، بلکہ آج کی مئے دورِ جدید جرمانے کے طور پر جناب قبلہ غوری صاحب کے سر تھی۔
آج کوئی ستارہ آسمان پر نہ تھا۔ ایک ”بے غیرت“ نکلا بھی سہی تو علی عمار یاسرنے بیچارے کو وہ بے نطق سنائیں کہ وہ شرم کے مارے گھنے بادلوں میں ڈوب مرا۔بعدازاں محفل کے تمام جوانوں کی توپوں کا رخ چاند کی طرف مڑا۔ اس نے عجلت میں بڑا سے بادل اپنے گرد لپیٹنے کی کوشش کی مگر کسی بد چلن حسینہ کے نقاب کی طرح چہرے کا معمولی سا حصہ ہی چھپا سکا۔اس پر مستزاد یہ کہ قبلہ وکعبہِ محفل جناب مجتبیٰ صاحب نے جگت جڑ دی۔
۔"کیوں میاں! مونچھیں رکھ لی ہیں۔“ چاند نامی شریف زادہ اس تیز نشتر کی تاب نہ لاسکا اور منظر عام سے چند ہی منٹوں میں ایسا بھاگا کہ ابھی تک دریافت نہیں ہو پایا ہے۔(دراصل بادل درمیان سے پچکا ہواتھا اور طرفین سے پھیلا ہوا تھا۔ مونچھ کا لفظ اس مظہر کے لیے بہترین تھا۔ مگر ہمیں کب ادراک تھا کہ انسانوں کی طرح اب چاند بھی سچ سننے کی ہمت کھو بیٹھا ہے۔ وگرنہ ہم بھی کہے دیتے۔”کس قدرخوبصورت لپ سٹک لگائی ہے")۔
انتخاب کی بات چلی۔آغاز”کنچے“ کی روحِ رواںسے ہوا۔ جاندار آواز ....مسکراتا چہرہ....الفاظ اور انداز میں بے پناہ محبت....زندہ دلی سیکھنی ہو تو کوئی عبدالروﺅف سے سیکھے۔ عبدالروﺅف کی طرف سے محسن نقوی کی شاندار غزل پیش کی گئی۔دادو تحسین جس کثرت سے ملی اس پر دل چاہتا ہے کہ کاش! ان ٹوکروں کی کوئی مادی حیثیت بھی ہوتی!
نگاہیں گھومیں ‘ ساتھ والی کرسی پر بیٹھے وقاص مغیرہ اقبال پر جاٹکیں۔ یہ ایکٹو، سوشل اور باغی نوجوان اپنے اندر جوش ‘ ولولے اور ہمت کا ایک کوہ گراں چھپائے ہوئے ہے ۔ یہ خوددار چہرہ بھی ا کثر مسکراہٹیں بانٹتاہے۔ انہی مسکراتے ہونٹوں سے نام برآمد ہوا۔”ابن انشاء“۔ محفل میں محشر بپا ہوگیا۔
دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابلِ دیدہوا
ایک ستارا بیٹھے بیٹھے تابش میں خورشید ہوا
آج تو جانی رستہ تکتے شام کا چاند پدیدہوا
تو نے تو انکار کیا تھا دل کب ناامید ہوا
آن کے اس بیمار کو دیکھے تجھ کو کب توفیق ہوئی؟
لب پہ اس کے نام تھا تیرا جب بھی درد شدیدہوا
ہاں اس نے جھلکی دکھلائی ایک ہی پل کو دریچے میں
جانوایک بجلی لہرائی عالم ایک شہید ہوا
تو نے ہم سے کلام بھی چھوڑا عرضِ وفا کی سنتے ہیں
پہلے کون قریب تھا ہم سے اب تو اور بعید ہوا
دنیا کے سب کارن چھوڑے نام پہ تیرے انشاءنے
اور اسے کیا تھوڑے غم تھے ؟ تیرا عشق مزید ہوا
آخری شعر کی پھر فرمائش کی گئی۔ پھر سنایا گیا۔ پھر شور بلند ہوا۔ اس کے بعد نگاہیں مسکین ہیچ مدان وبندہ نادان پر آن رکیں۔میں نے فوراََ لبیک کہا اور فیض صاحب کی ” رقیب سے“ پیش کی اورداد کے ٹوکرے سمیٹ کر واپس بیٹھ گیا۔ اب ہمارے نئے مہمان جناب شہزاد ریاض کی باری آئی ،انہوں نے شاکر شجاعبادی کا اردو کلام پیش کیا۔ شاکر....اوجِ کمال کا دوسرا نام ہے، محفل کا رنگ پکڑنا لازم تھا۔ خصوصاََ غزل میں موسیقیت اور ترنم نے تو لطف ہی دوبالا کر دیا۔
اس کے بعد ‘ برجستہ جوابوں کے بے تاج بادشاہ علی عمار یاسر کی باری آئی۔ علی .... ایک تو انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتاہے ‘ پھر اسکا وہ ظالم لہجہ۔۔ اف! علی عمار یاسر نہایت عمدہ حس مزاح رکھتے ہیں ۔ ان کے ساتھ بتائے چند لمحے ہی یادگار بن جاتے ہیں۔ یوسفی سے خاصی عقیدت ہے جس کا اثر ان کی زندگی میں بھی بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔
اس کے بعد ‘ برجستہ جوابوں کے بے تاج بادشاہ علی عمار یاسر کی باری آئی۔ علی .... ایک تو انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتاہے ‘ پھر اسکا وہ ظالم لہجہ۔۔ اف! علی عمار یاسر نہایت عمدہ حس مزاح رکھتے ہیں ۔ ان کے ساتھ بتائے چند لمحے ہی یادگار بن جاتے ہیں۔ یوسفی سے خاصی عقیدت ہے جس کا اثر ان کی زندگی میں بھی بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔
اب کے علی عمار یاسر نے ابن انشاءکی بستر مرگ پر لکھی جانے والی ‘انکی زندگی کی آخری نظم پیش کی۔
ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی
ا ب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال ،مہینے، دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
ہاںا پنی جاں کے خزانے سے
ہاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں
جب ناما دھر کا آیا کیوں
سب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ پیار ولار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں
ہم مانگتے نہیں ہزار برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں ،سود بیاج بھی دے لیں گے
ہں اور خراج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے
کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے
کیوں اس مجمع میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو ؟ کچھ لاتی ہو
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
سب عمر کی نقدی ختم کیے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
اب گیت گیاسنگیت گیا
ہاں شعر کا موسم بیت گیا اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں، کچھ را ت گریں
یہا پنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہاں عمر کے ماہ و سال بہت
ان سب کو ہم نے بلایا ہے
اور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاو ¿ ان سے بات کریں
ہم تم سے نا ملاقات کریں
کیا پانچ برس ؟
کیا عمرا پنی کے پانچ برس ؟
تم جا ن کی تھیلی لائی ہو ؟
کیا پاگل ہو ؟ سو دائی ہو ؟
جب عمر کا آخر آتا ہے
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس ہی زالی ہے
ہے کون جو اس سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا ہے
تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
پھر تم ہو ہماری کون بھلا
ہاں تم سے ہمارا رشتہ ہے
کیاسود بیاج کا لالچ ہے ؟
کسی اور خراج کا لالچ ہے ؟
تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو ؛
تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس، یہ چار برس
چھن جائیں تو لگیں ہزار برس
سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہو کار ، گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
یہ کون ہے ؟ کیا ہے ؟ کیسی ہے ؟
ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ؟
ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں
گستاخ آنکھوں کت جا لڑیاں
ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے
جو ساعت و ماہ و سال نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
لو اپنے جی میں اتار لیا
لو ہم نے تم کو ادھار لیا
سدا مسکراہٹیں بکھیرتے انشا ءجی کی اس نظم میں درد ہی درد تھا ۔ اتنی بے بسی سے 5 سالوں کی ان پوٹلی کو دیکھ رہے تھے کہ دل پر قابو نہ رہا۔اپنی دھیمی آواز میں علی نے پوری محفل کو باندھ لیا تھا۔نظم کے اختتام پر ستایش کے سبھی الفاظ دل سے آواز کا روپ دھار کے نکلے اور زبان کے راستے باہر ابل پڑے۔
اب نگاہیں کعبہِ محفل پر جارکیں۔مجتبیٰ ملک صاحب....دھیمی شخصیت اور نرم آواز! فیض کو آج کے دور میں دیکھنا ہو تو ان کے ساتھ ایک دن گزار لیا جائے۔ میں نے مجتبیٰ صاحب کے اور اپنے 6 سالہ تعلق میں انہیں کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔محض مسکراتے دیکھا ہے۔ پھر خوبرو آدمی ہیں‘ لہجہ بھی شخصیت کی طرح لاجواب ہے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ گائیکی اور خطاطی میں بھی ید طولیٰ رکھتے ہیں ۔ایسے میں ہم یاروں کا ببانگ دہل ان کے باقاعدہ” فین“ ہونے کا اعلان کر دینا کوئی عجیب بات نہیں۔مجتبیٰ صاحب نے مئے دورِ جدید کا ایک بے تکلف گھونٹ لیا اور اپنے مخصوص لہجے میں اپنے آج کے انتخاب کا اعلان کیا۔”لیلائے وطن“! اور سات افراد کی تالیوں نے پوری چھت ہلادی۔ یہ نظم مجتبیٰ صاحب سے پہلے بھی کئی بار سنی ہے۔ مگر ان کاشاندار انداز بیاں اور دھیمہ لہجہ ایک عجیب سحرمیں جکڑ لیتا ہے کہ جتنی بار بھی سنی جائے ، لطف کم نہیں ہوتا۔
اتنے میں غوری صاحب بھی آن پہنچے۔ مئے دورِ جدید کے سلسلے میں ان کے ہزار ہا دفاعی حربوں کے بعد بھی(خاطر سے یا لحاظ سے) انہیں منا ہی لیا۔لہٰذا چند ہی منٹوں میں عبدالروو ف صاحب گلاس دھو لائے اورمسکین سڑک کے اس پار، ہجویری ہوٹل سے ”مینائے مئے دورِ جدید“ پکڑ لایا۔
ہز ہائی نس‘ جناب نوید غوری صاحب کے بغیر محفل حقیقتاََ ادھوری ہوتی ہے۔ان کی آمد کے ساتھ ہی مسکراہٹوں اور قہقہوں کا سیلاب ‘خامشی اور سنجیدگی کے بدنما بند توڑتے ہوئے چہار سو پھیل جاتا ہے۔ جناب غوری صاحب پر واقعات(یا بقول علی عمار یاسر‘....واہیات) کا الہام ہونا شروع ہوگیا۔سنسر کا مسئلہ شدت نہ پکڑ چکا ہوتا تو میں موٹان و لمبان کی تاریخی حیثیت اور راہ حق کے شہیدوں کے قصے بھی لکھ مارتا۔
بہر کیف ‘ اب تخلیقات کی باری تھی۔ عبدالرووف کی جانب سے ایک غزل پیش ہوئی۔
جہاں جہاں سے آدم کو روک رکھا تھا
وہا ں وہاں پھر وہ کیوں کر گیا ہوگا
بنا رہا تھا وہ جب اک کاروان انسانی
پھر اپنے آپ ہی وہ روح میں اتر گیا ہوگا
دل کہیں بکھر جائے تو ایسا لگتا ہے
ذرا سی دیر پہلے تو یا ں زلزلہ ہوگا
ذرا سا شور جو سنتا ہوں اپنے کانوں میں
اور کچھ بھی نہیں صاحب غموں کا تعزیہ ہوگا
ویسے تو پوری غزل سراہی گئی مگر دوسرا شعر خصوصاََ تحسین سمیٹ گیا۔
وقاص مغیرہ اقبال نے کچھ نہ پیش کرنے کا عندیہ دیامگر ارباب اختیار(خصوصاََ کعبہ محفل) نے جرمانوں کی وہ وعیدیں سنائیں کہ بالآخر وقاص صاحب کو اپنی ایک زیر تکمیل نظم کے چند فقرے پیش کرنے پڑ گئے۔
اب توپیں میری طرف مڑگئیں۔میں نے کان پکڑے بندہ بن کے اپنی آزاد نظم پیش کردی
نہ قوس ِقزح نہ بادصبا
نہ خوش خوش ہنستی آنکھیں ہی
نہ مینا‘ محفل ‘مے خانہ‘
مطرب کی صدا نہ باتیں ہی
گل‘ گلشن ‘رنگیں زار ہی کیوں
دنیا کی دمک برساتیں ہی
تری یاد کے آگے ہیچ ہیں سب
سو پھیکے پھیکے لگتے ہیں
بس ایک خزاں کا موسم ہے
جو پیلے پیلے پتوں میں
تری یاد بسائے پھرتاہے
یا شب کے پچھلے پہر ہیں جو
تجھے حاضر ناظر پاتے ہیں
یا یوں کہیے جب راتوں میں
تری یاد کے بادل آتے ہیں
اور تاریکی کے پانو بھی
چھن چھن چھن کر نچ گاتے ہیں
یا وقت قضا کہ جب سانسیں
گھٹ گھٹ گھٹ کر سی سینے میں
تجھے اپنے پاس بلاتی ہیں
یا وہ لمحہ جب حق والے
میرے دل کے کعبے کے اندر
تری یاد کے بت گرانے میں
ناکام و پسا ہوتے ہیں
تب اپنی ذات کے اندر ہی
ہم کافر کافر ہوتے ہیں
رووف کی جانب سے خصوصی تحسین نے کافی طمانیت بخشی۔ مجتبیٰ صاحب کچھ دیر تک سر پکڑ کر عالم وجد میں بیٹھے رہے ۔ پھر فرمانے لگے ” کیا لکھا ہے تم نے“(نوٹ :یاد رہے کہ انہوں نے یہ سب تعریفانہ انداز میں کیا)
اب بال شہزاد ریاض کی کورٹ میں جاپڑی۔ انہوں نے ایک نہایت عمدہ غزل پیش کی جس میں لکھنوی خارجیت جھلک رہی تھی۔اس پر مستزاد یہ ک ہم سب نوجوان۔۔۔۔ واہ واہ کی آوازوں سے بنچ پر پڑے شیشے کے گلاس لرزنے لگ گئے۔
علی عمار یاسر نے” صاحب“ پیش کی ہمیشہ کی طرح سراہی گئی ۔
ظلمتوں میں حیات ہے صاحب
دن کے دھوکے میں رات ہے صاحب
آج بھی سورج نکلنے والا نہیں
رات کے بعد رات ہے صاحب
یہ جو تم نے ہیں نظریں چرایئں
دل میں کچھ تو بات ہے صاحب
خصوصاََ مطلع میں صنعت لف و نشر کا استعمال خوب سراہا گیا۔اس کے بعد عوام کی پرزور فرمائش پر تیسری بار ان سے ان کی شاہکار نظم” میں نے اپنی آنکھوں سے “ سنی گئی۔اس باربھی ستائش کسی بھوکے بچے کی طرح علی کے الفاظ پر ٹوٹ پڑی۔
دل میں کچھ تو بات ہے صاحب
خصوصاََ مطلع میں صنعت لف و نشر کا استعمال خوب سراہا گیا۔اس کے بعد عوام کی پرزور فرمائش پر تیسری بار ان سے ان کی شاہکار نظم” میں نے اپنی آنکھوں سے “ سنی گئی۔اس باربھی ستائش کسی بھوکے بچے کی طرح علی کے الفاظ پر ٹوٹ پڑی۔
اس کے بعد غوری صاحب کی طرف سے ایک شاندار سنجیدہ شعر پیش ہوا۔ پھر حاضرین نے مجتبیٰ ملک صاحب کی جانب رخ پھیرا۔ جتنی دیر میں ہم دوست چوک سے سکول پہنچے تھے(غالباََ10منٹ یا اس سے بھی کم) اتنی ہی دیر میں انہوں نے ایک غزل لکھ ماری۔
یہ ممکن ہی نہیں کہ مجتبیٰ صاحب غزل پیش کریں اور نشستوں سے اٹھ کر سند پسندیدگی نہ دی جائے۔ اس کی وجہ محض انکا نام نہیں بلکہ وہ ہر بار تخلیق ہی ایسی لاتے ہیں کہ دل کو جا لگتی ہے(او ر آواز آتی ہے۔ ”ٹھک“۔)اب کی بار کچھ یوں سخن طراز ہوئے ہیں۔
ایک خواہش ہے، شکائت ہے، گلہ ہے، کیا ہے؟
تم بتاﺅ کہ جو یہ عشق و وفا ہے، کیا ہے؟
سینہ دہر میں کھل کے بھی جو پوشیدہ ہے
جو میرے دل میں نہاں ہو کے کھلا ہے، کیا ہے؟
نوالہ ڈھونڈ ہی لیتا ہے بھوکے پیٹوں کو
جو بہم رزق نہ دے، کیسا خدا ہے، کیا ہے؟
تیری آنکھوں کے ستاروں کی روشنی کی قسم
یہ جہاں گر تیری آنکھوں کے سوا ہے، کیا ہے؟
قبلہ و کعبہ....آج بھی قبلہ و کعبہِ محفل ہی رہے۔ اس کے بعد محفل برخاست ہوئی اور آٹھ جزیات میں بٹ کر شہر جلالپور پیر والہ کہ آٹھ گھروں میں چلی گئی۔ سات جزئیات تو مبتلائے خواب خرگوش ہیں جبکہ آٹھواں مسکین جزو 12بجے رودادِ محفل لکھنے کے بعدرات کے 2بجے اسے ٹائپ کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔ یار زندہ صحبت باقی۔۔
صہیب مغیرہ صدیقی
26 July, 21013.
3 تبصرے:
اس تبصرہ کرنے کا واحد مقصد صرف اورصرف اس ٹمپلیٹ کے تبصرہ سیکشن کی تعریف کرنا ہے۔ چونکہ اس تعریف کے لیے الفاظ نہیں ہیں لہٰذا تبصرہ یہیں ختم ہوا!
میرے پاس مجتبی، علی اور صہیب کی تخلیقات کی تعریف کرنے کے لیئے کوئی الفاظ نہیں، قسم سے۔
Suhaib miyaan! Kia naqsha khaincha hy. Waaah.. Parrh kr lutf dobaala ho gya.
Haqeeqatan is ka ehsaas ab howa hy k hamaari mehfilain kitni yaadgaar hoti hain. Meray khyaal sy rodaad likhny k liye bilkul theek bandy ka intikhab kia gya hy
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔