کنچے، کیوں؟

فلسفی  سپینوزا نے مثال دی تھی کہ اگر آپ ایک اینٹ ہوا میں اُچھالیں اور پھر اُس سے پوچھیں کہ بتا تیری رضا کیا ہے، تو وہ یہی کہے گی کہ میں برضا و رغبت اوپر کی طرف جا رہی ہوں۔ اور جب وہ کشش ثقل کے ہاتھوں تنگ آ کر نیچے کی طرف سفر کر رہی ہو گی، تب بھی آپ کو یہی بتائے گی کہ میں بقائمی ہوش و حواس اور اپنی مرضی سے نیچے جا رہی ہوں۔
کنچے بھی اسی اینٹ کی مانند ہیں۔انگلی کے ایک خفیف سے اشارے سے دوسرے کنچے کی طرف  ایک اڑیل اور مغرور بھینسے کی طرحدوڑتے سمے، اُ س سے ٹکرا کر دوسری سمت جانے کے دوران اور لڑکھڑا کر گرتے پڑتے ایک کنکری کےسہارے بے دم ہو کر رکنے تک، ایک کنچے کے دماغ میں وہ گھمنڈ ہوتا ہے جو انگلی کے اُس خفیف سےاشارے کو بُھلا دیتا ہے جس نے اسے دوڑایا تھا۔ کنچہ وہیں پڑا ہانپتا رہتا ہے، اس بات سے بے خبر کہ دوسرا کنچہ بھی ایک بد دماغ اور منہ زور گھوڑے کی طرح اس کی سمت روانہ ہے۔ پھر ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے کہ کوئی ہاتھ سب کنچوں کو سمیٹ کر ایک ہی تھیلی میں بند کر دیتا ہے۔

اُس کی مرضی، ہم سے کھیلے کہ ہمیں توڑے
دست تقدیر میں ہم ،  کنچوں کی طرح ہیں

سپینوزا کی اینٹ، کنچوں اور انسان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ جب حرکت میں ہوں، یہ تینوں اپنی حرکت کے محور و مرکز کو بھلا دیتے ہیں۔
اس تخلیقی چنڈال چوکری کا نام ’کنچے‘ رکھنے کی وجہ تسمیہ اپنی تخلیقات کے معلوم و نا معلوم محور و مرکز کے سامنے اپنی بے بسی کا اعتراف کرنا ہے۔ مرزا نوشہ اسداللہ خاں غالب نے جانے کس خیال میں گُم ہو کر یہ شعر لکھا تھا:

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب! سریر خامہ،    نوائے سروش  ہے

علی عمار یاسر

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

Blogroll