شاعر : خالد بن حامد
انتخاب: صہیب مغیرہ صدیقی
ابھی زنجیر پا ہیں آرزوئیں‘ حسرتیں لاکھوں
ابھی رستے کا پتھر ہیں طلب کی کلفتیں لاکھوں
ابھی ہونٹوں پہ سیرابی کی شادابی نہیں آئی
ابھی آنکھوں میں سچے دکھ کی بے خوابی نہیں آئی
ابھی لہجے میں دلسوزی کا ویرانہ نہیں آیا
ابھی تک درد کی صورت کا افسانہ نہیں آیا
ابھی تک ہیں اسی کے خواب میں ڈوبی ہوئی آنکھیں
ابھی تک ہیں شب ِ غرقاب میں ڈوبی ہوئی آنکھیں
ابھی تک مہر ِ عالم تاب کی ہیں منتظر آنکھیں
ابھی تک ہیں اسی کی روشنی پر منحصر آنکھیں
ابھی تک رنگِ راحت سے تہی ہیں سینکڑوں سپنے
ابھی تک قرب ِ وحدت سے تہی ہیں سینکڑوں سپنے
ابھی تسکین والفت کے لیے اک لمحہِ راحت
مری جاں ! سینکڑوں صدیوں کی دوری پر ہے یہ جنت
ابھی زنجیر پا ہوں میں ‘ ابھی زنجیر پا ہو تم
مجھے دل سے یقیں ہے مجھ سے بے حد باوفا ہو تم
مگر اس تشنہ خواہش کو زیرِ اب مت دیکھو
خلش تازہ کوئی ڈھونڈو‘ ابھی یہ خواب مت دیکھو
ابھی یہ خواب مت دیکھو‘ ابھی یہ خواب مت دیکھو
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔