(صہیب مغیرہ صدیقی)
کوئی اداسی سرِ تبسم، چھپی ہوئی سی مہک رہی ہے
اجاڑ راتوں میں سرد سانسیں ، فسردگی کہ چہک رہی ہے
مرے محلے کی جھونپڑی میں ، بھوک سے کل چل بسا وہ
کہ جس کے مالک کے کئی مربعوں میں زرد گندم لہک رہی ہے
ہر ایک "میں " نے بہت کمایا، وطن کو لوٹا ،حرام کھایا
مرے ہی نالہِ احتسب سے زمیں ہے اب کہ دہک رہی ہے
خراب حالوں کے مرگھٹوں پہ، کتنے لاشے کہ بے کفن ہیں
کہ جن کے سر کے قریب بیٹھی نسل نئی اک سسک رہی ہے
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔