(صہیب مغیرہ صدیقی)
مرے قاتل ! ترے ادراک پہ آجاتے ہیں
کیا فقط ہم ہی رہ ِ عشق ووفا جاتے ہیں؟
آنجہانی ہی سہی دل میں پڑی ہے اب تک
یہ جو خواہش ہے اسے اب‘ دفنا جاتے ہیں
مقتل ِ دیں ہے کھلا ‘ سو یونہی چلتے چلتے
دل مرتد کو سنانوں سے سجا جاتے ہیں
کبھی مسجد‘ کبھی مند ر کا ڈراوا دے کر
چلے آتے ہیں صنم بن کے خدا جاتے ہیں
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔