29 جولائی، 2013

رودادِ محفل۔27 جولائی 2013


    2013، ہفتہ  ،جولائی27
 
آ ج کی رات ہماری ہنسی کے نام۔۔۔ آج کی رات ہم یاروں کے قیلولہ کے نام۔۔ آج کی رات غوری صاحب کے ذوق مزاح                       کے نام۔۔۔ آ ج کی رات دل نا کردہ کار کو مجبوراََ کہنا پڑا کہ بس
مسکین کو پرسوں کے جرمانے کے عوض بوتلوں کا انتظام خود کرنا پڑا ، سو کیا۔روﺅف کو پکڑا۔ شومئی قسمت وقاص        خود ہی آن پہنچا، کچھ ہی دیر میں یہ مختصر گروہ بیت المال کے سکول جا پہنچا۔دروازہ پیٹا۔ غوری صاحب دروازے تک تشریف لائے ہی تھے کہ وقاص مغیرہ اقبال صاحب کے دل میں خدا جانے کیا آئی۔دروازے کا ہینڈل پکڑ کر جھول گیا۔ اب دروازے پر زور اس قدر پڑا کہ صاحب اندر سے کھینچ کھینچ کر تھک گئے مگر مجال ہے جو کھل جائے۔ خیر ، بھلے وقتوں کی نیکیاں کام آئیں ، وقاص نے خود ہی دروازے پر گرفت ڈھیلی کر دی۔اندر داخل ہوئے۔مرشدین و قبلتین کو سلام عرض کیا، مجتبیٰ صاحب کی جیب سے دس روپے برآمد کر کے عاجز ہی برف لینے باہر گیااور ہمیشہ کی طرح مظلوم روﺅ ف ہی گلاس دھوکر لایا۔کچھ ہی دیر میں علی بھی آن پہنچا ۔ آج قہقہوں کی رعنائی ہی عجیب تھی۔آغاز سے پہلے ہی بات بات پرقہقہے گونج رہے تھے۔ موسم کا مزاج بھی شاید نرالا تھا۔ مئے دورِ جدید کی مقدار بھی زیادہ تھی۔ اسی سحر زدہ ماحول میں انتخاب روﺅف سے محفل نے آغاز پکڑا۔انہوں نے مرزا غالب کا انتخاب کیا ،راحت کی آواز میں گائی جانے والی غالب صاحب کی معروف دو غزلوں کے اشعارپیش کر دئیے۔اشعار کا حسن اپنی طرف، روﺅف صاحب نے جس طرح اپنی ہنستی آواز میں گا کر سنایالطف ہی آگیا۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال ِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا
یہ مسائل ِ تصوف، یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
اس کے بعد جب ”کوئی امید بر نہیں آتی “ کا ترنم شروع ہوا تو تمام معززان ِ محفل نے باجماعت ہو کر پروفیشنلز کی طرح تالیاں(بلکہ واضح طور پر کہوں تو”تاڑیاں“) پیٹنی شروع کر دیں۔بس صاحب! وہ سماں بندھا کہ واہ
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال ِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
موت کا اک دن معین ہے 
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاﺅ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
وقاص کی باری آئی ۔صاحب ذرا سا کھانسے‘ انتخاب کے لیے اعلان فرمایا، ''نواز دیوبندی ''۔۔اور پھر کچھ یوں گویا ہوئے۔
وہ رلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
جب میں رو کر مسکرایا دیر تک
خود بخود بے ساختہ میں ہنس پڑا
اس نے اس درجہ رلایا دیر تک
بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
گنگاتا جا رہا تھا ایک فقیر
دھوپ رہتی ہے نہ سایہ دیر تک
کل اندھیری رات میں میری طرح
ایک جگنو جگمگایا دیر تک
غزل کا تخیل عمدہ تھا ۔ بے حد مزا آیا۔
یہاں پہنچ کر اچانک غوری صاحب نے استفہام کیا،”آپ میں سب صحت مند حضرات ہیں، روزے سب کے سب کس نے رکھے ہیں؟؟؟“ محض علی ہی ایسا مرد مجاہد تھا جس نے تمام کے تمام روزے رکھے تھے ۔ بڑے اعتماد سے سینے پر ہاتھ رکھ کر اعلان کیا۔بس!   
 لو اپنے آ پ دام میںصیاد آگیا                                                       
اس کے بعد کے واقعات کو پیش کرنا کافی مشکل ہے ۔ کانٹ چھانٹ کی جائے تو لطف ختم ہو جائے گا، نہ کی جائے تو قارئین کا اخلاق۔۔۔۔۔ جب علی نے روزے کا حل” قیلولہ “ بتایا تو غوری صاحب کی طرف سے ایک عدد خطرناک دستی واقعہ پیش ہو گیا۔ اس کے بعد قہقوں کا وہ طوفان شروع ہوا کہ جسے روکنا کسو کے بس میں نہ تھا۔ قیلولہ کی طبی اور طبعی فضائل گنتے گنتے آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ دوست پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنستے رہے۔یار لوگوں نے قیلولہ کی تعریف ہی بدل دی۔ یہاں پر تفصیلات نہ لکھنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
ذرا دیر کے بعد جب حالت کچھ کہنے کی حالت میں آئے تو مجھ سے انتخاب طلب کیا ۔ میں نے اقبال کی بال جبریل کی معروف نظم پیش کر دی۔
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں 
آب وگل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں 
کارواں تھک کر گضٓ کے پیچ وخم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں 
بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم 
اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں 
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تما
 اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں 
کہہ گئیں رازِ محبت پردہ داریہائے شوق
تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ راہرو کی صدائے دردناک 
جس کو آوازِ رحیل کاروں سمجھا تھا میں
اس کے بعد علی کی طرف مڑے ۔ شاعر کے نام کا اعلان ہوا،” مصطفی زیدی“ اور پھر جب نظم کا عنوان گونجا تو تو نظم پیش ہونے سے پہلے ہی شور مچ گیا۔نظم کا عنوان تھا  ”آخری بار ملو“۔
آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوے دل
راکھ ہو جائیں ،کوئی اور تمنا نہ کریں
چاکِ وعدہ نہ سلے،زخمِ تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے ،شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آ کر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوءامید تو آنکھیں چھن جائیں

ا ±س ملاقات کا اس بار کوءوہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و ج ±نوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدیدِ وفا کا نہ شکایات کا وقت
ل ±ٹ گءشہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ
اب جو کہنا ہو تو کیسے کوءنوحہ کہیے
آج تک تم سے رگِ جاں کا کءرشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے

پھر نہ دہکیں گے کبھی عارضِ و ر ±خسار ملو
ماتمی ہیں دَمِ رخصت در و دیوار ملو
پھر نہ ہم ہوں گے ،نہ اقرار،نہ انکار،ملو
آخری بار ملو۔

محفل عش عش کر اٹھی۔ انتخاب ہی ایسا تھا۔ اس کے بعد مجتبیٰ صاحب کی باری آئی۔ آپ نے اب کی بار ایک نہایت مترنم اور منفرد سی آزاد نظم پیش کی، جو اب تک ان کے لہجے میں کانوں میں گونج رہی ہے۔
کوک میرے دل کوک
ہر سینے کونے چار
ہر کونے درد ہزار
ہر درد کا اپنا وار
ہر وقت کی اپنی مار
تیرے گرد و پیش ہجوم
کئی سورج چاند نجوم
ہر جانب چیخ پکار
تیری کوئی سنے نہ ہوک
کبھی کوک میرے دل کوک
ہر سینے آنکھیں سو
ہرآنکھ کی اپنی لو
پر پوری پڑے نہ ضو
کبھی پھوٹ سکی نہ پو
تیرے صحن اندھیرا گ ±ھپ
تیری اللہ والی چ ±پ
تیری مٹی ہو گئے جو
تیری کون مٹائے بھوک
کبھی کوک میرے دل کوک
ہر سینے سو سو جنگ
تیری سانس کے رستے تنگ
تیرا نیلا پڑ گیا رنگ
لمحوں کے خنجر تیز
ہر دھار اذیت خیز
تیرا نازک اِک اِک انگ
تیرا اِک اِک تار ملوک
کبھی کوک میرے دل کوک
لطف ہی آگیا۔
اس کے بعد تخلیقات کا دور چلا۔آغاز ہمیشہ کی طرح عبد الرﺅف سے ہوا۔اب کی بار رﺅف نے بڑے خوبصورت انداز میں ایک ہی شعر پیش کیا۔

باری آئی وقاص مغیرہ اقبال کی ۔ جناب والا کی طرف سے درج ذیل آزاد نظم پیش ہوئی۔

تمہاری تصویر دیکھی ہے
آنکھوں میں نمی اور منجمد چہرہ
میں نے اداسی کو تمہارےچہرے پر رقص کرتے دیکھا ہے
ہاں! میں نے تمہاری اداس تصویر کو دیکھا ہے
کیوں؟ آخر کیوں۔۔؟؟
اسی لئے چھوڑا تھا نا؟؟
کہ میں تمہیں خوش نہیں رکھ سکتا،
سو ! چھوڑ دیا تم نے، منہ موڑ دیا تم نے
جب اپنی مرضی کر ہی لی تو پھر یہ اداسی؟
یہ افسردہ سا چہرہ اور چشم نم تمہاری آج؟
میں جی تو رہا ہوں نا!
اب میں گھٹ گھٹ کے بھی نہیں جی سکتا؟
معاف کرنا، مگر میں خدا نہیں کہ بے حس و غافل دیکھتا رہوں
نہیں میری جان نہیں ایسے نہ کرو
تمہاری وہ دل گیر مسکراہٹ،
شوخ مزاج، الہڑسی،وہ حسن بے حساب،چنچل اور پھر وہ تمہارے گال پہ قاتل ، تل
اف خدایا!
تم تواوروں کو اداس کیا کرتی تھی اور آج خود؟؟
جانتی ہو تمہارے چھوڑ جانے پر ، بہت کھویا بہت رویا
پھر ایک دن ڈھونڈنے نکل پڑا،
کسی ایسے کو کہ اسے دیکھ کر اپنا غم بھول جائے
جانتی ہو مجھے کیا ملا؟؟
دنیا! ہاں میری جان دنیا ملی مجھے
جابجا بے کفن و لاوارث لاشیں،جابجا بکتے جسم،
خون میں لتھڑے ہوئے ،کٹے پھٹے جسم،
آنسو، یتیم بچے،نام غیرت پہ قتل،حوس کے پجاری،
انسان انسان کا خونی، اور ان سب کے ذمہ دار!
فراعین وقت۔۔۔۔
دن میں کئی بار مرتا ہوں مگر میری جاں!
تمہای وہ افسردہ تصویر!!! ایسی کہ اس سے بڑا کوئی درد نہیں 
پھر دیکھی تو شاید موت کے مرنے تک مر جاو ¿نگا
خدارا خوش رہا کرو! خدارا خوش رہا کرو!

  جناب کے بعد مسکین کی کرسی تھی ، مسکین نے اپنے پرانے سٹاک سے ایک مختصر سی آزاد نظم” مشکل“ پیش کر دی۔

سنا ہے تلخی ایام سے لاچار ہوچکے 
برباد ہو چکے ‘ وہ بے زار ہو چکے 
گر یوں ہے 
تو بے تشنہ و آباد کیوں نہ ہم
سرِ عام کوئی ہجر کا ازالہ کر چلیں
بڑی مشکل سے ‘ اپنے دل سے 
ہمیں نکالا تو کیوں نہ ہم
مر کر ذرا مشکل میں اور اضافہ کر چلیں

ایک ذرا روایتی سی داد کی ٹوکری اٹھا کر دل میں ڈالی اور آگے جناب علی عمار یاسر کی طرف رخ کیا۔ اب کے علی ایک چھوٹی سی فکاہیہ تحریر لکھ لائے تھے۔تحریر پڑھ کر جم کے ہنسے۔ مگر تحریر کورا مزاح نہیں تھی ۔ اس میں بھی ایک لمحہ ِ فکریہ نظرمل گیا تھا۔ مگر مزاح کا عنصر غالب تھا۔کہیں ہلکے نشتر کے ساتھ چھوٹے چھوٹے طنز، خوب لطف دے گئے مثلاََ لکھتے ہیں۔
” دیوانِ غالب ڈیڑھ دو سو میں بآسانی مل جاتا ہے۔اس سے سستا تو فی زمانہ ضمیر ہی ہے۔“
اسی طرح،کم عمری میں کتابوں سے تعلق جڑ جانے پر دوسرے بچوں کو کمال تاسف سے دیکھتے ہوئے جو خود پر طنز مارا ہے وہ بہت بڑا کمال ہے۔ایک اپنے ہم عمر کو سائیکل چلاتے دیکھا۔ اس پر لکھتے ہیں:
”دائیں ہاتھ سے جانگیہ کھینچا اور بایاں ہاتھ ناک پر رکھ کر سرڑ رڑ رڑرڑ کی اور دل میں سوچا کہ ابھی بچہ ہے۔ ایک دو کتابیں پڑھ لے تو سائیکل وائیکل بھول جائےگا۔“
ادباءکی ان کی زندگی میں نا قدری اور بعد از وفات ہاتھوں ہاتھ بکری پر بڑا خوبصورت جملہ جوڑا:
”دو چار روز ہم اہلِ ہنر بھی جی لیں ، اگر یہ لفظ ہماری حیات میں ہی بک جائیں۔“
علی کو بے حد داد ملی ۔ہنسی کے چھوٹتے فوارے بجائے خود دلیل تھے کہ علی نے شاندار لکھا ہے۔
جناب قبلہ و کعبہ ‘ مجتبیٰ ملک صاحب نے معذر ت کے ساتھ ایک زیر تکمیل نظم کا پہلا جملہ ہی پیش کیا
،
میرے عزیزو!
ہماری چپ نے نجانے کتنی ہی سرگوشیوں کو 
گرج کا درجہ عطا کیا ہے۔

آج ایک نیا کمال ہوگیا۔ آج غوری صاحب نے اپنے دو اشعار پیس کیے۔ ہم نے آج تک غوری صاحب کو محض چچا غالب کا زبردستی کا ہمزاد ہی سمجھا تھا، جن پر گاہےبگاے واہیات کا الہام پوتا رہتا ہے۔ مگر۔۔۔ اب کے انہوں نے درج ذیل اشعار پیش کر دیے۔۔

                        اے خدا تیری سخاوت کا جب بھی ذکر چلا
نکلنا خلد سے آدم کا بہت یاد آیا

اور ابھی اس شعر پر ستایشی جملے ختم نہیں ہوئے تھے کہ ایک اور شعر پیش ہوا۔۔۔

سزا کے طور پر بھیجا گیا ہوں دنیا میں
منتظر ایک سزا اور ابھی باقی ہے۔۔

یار لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ غوری صاحب کے تخیل کا صحیح ادراک آج ہوا تھا۔
اس کے ساتھ ہی محفل برخاست ہوگئی۔گھر پہنچتے ہی روداد لکھنا چاہتا تھا ۔مگر بڑے بھائی صاحب نے اپنے آمرانہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سسٹم پر پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین کھیلا جانے والاٹی ٹونٹی میچ دیکھنے کا اعلان کیا۔ نتیجتاََکل کی روداد بھی آج ہی لکھ رہا ہوں۔
صہیب مغیرہ صدیقی
جولائی 29 ۔۔۔ 2013


0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

Blogroll