4 اگست، 2013

ساڈا چڑیاں دا چمبا ~ وقاص مغیرہ اقبال

(وقاص مغیرہ اقبال)

جیسے ہی اختر گھر کی گلی کی طرف مڑا  تو گھر کے سامنے لوگوں کا حجوم دیکھ کر ذرا سا کھلکھلا اٹھا۔گلی میں دائیں جانب
 گاڑیاں، بائیں جانب موٹر سائیکل لائن میں کھڑے تھے۔ان کے درمیان تیزی سے گزرتاہوا اختر اپنے گھر کے دروازے پر جونہی پہنچا، سفید لباس میں ملبو س اختر کے والد نے چہرے پہ مسکراہٹ لیے گلے لگا کر اس کا استقبال کیا۔زیادہ مہمان نہ  تھے مگر اتنے تھے کہ گھر میں خوب شوروغل تھا۔اختر نے اپنا سامان رکھا اور فاطمہ کے کمرے میں داخل ہوا جہاں اس کی لاڈلی بہن لال رنگ میں ملبوس، مہندی ہاتھوں پر سجائے زیورات  سے لدی بیٹھی تھی۔فاطمہ کا چہرہ دوسری طرف ہونے کی وجہ سے اس نے اختر کو نہیں دیکھا تھا۔حسب معمول اختر نے آج بھی چپکے سے اپنی لاڈو کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھا تو فاطمہ کے غمگین چہرے پر مسکراہٹ پھوٹ پڑی اور فٹ سے بولی۔۔۔
بھیا آپ آگئے۔۔؟؟  کتنی دیر کردی آنے میں۔۔۔۔۔!! جائیں میں نہیں بولتی آپ سے!!!
اختر فاطمہ کے سامنے بیٹھ گیا اور کان پکڑ کر بولا۔۔اپنے بھیا کو معاف کردو۔۔ اور جیب میں سے ایک سونے کی انگوٹھی نکال کر فاطمہ کے ہاتھ میں دی جو کبھی فاطمہ مہنگی ہونے کی وجہ سے نہ خرید پائی تھی۔ فاطمہ نے جھٹ سے ناراضگی ختم کی اور مسکرا اٹھی۔ ابھی دونوں نے باتیں کرنا شروع ہی کیا تھا کہ آخری رسومات کے لیے بابا کا بلاوا آگیا۔بہن بھائی کے مقدس رشتے کے احساس میں بندھے دونوں چہروں پر افسردگی کے بادل چھا گئے۔دوسرے ہی لمحے اختر بڑی مان سے اپنی لاڈو کو باہر لے گیا جہاں مہمانوں کی نگاہیں دلہن کو دیکھنے کے لیے منتظر تھیں۔صحن کے بائیں جانب کرسیوں پر براجمان مہمانوں کی نظریں دائیں جانب سٹیج پر نئی زندگی کا آغاز کرنے والے جوڑے پر تھیں۔ اتنے میں رخصتی کا وقت آن پہنچااختر اور اس کے بابا نے ہزارہا دعاؤ ں کے ساتھ فاطمہ کو رخصت کیا۔
فاطمہ کو رخصت کیے پانچ گھنٹے گزر چکے تھے چنانچہ اختر کے با با نے سوچا اب تک تو میری بٹیا کو اپنے گھر کو پہنچ جانا چاہیے، بارات نے ملتان سے لاہور جانا تھا۔ اختر کے والد نے اگلے ہی لمحے خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کا ریسیور کان کے ساتھ لگاکر نمبر ملایا اور بڑی بے صبری سے جواب کا انتظار کرنے لگا۔
ہیلو جی۔۔۔۔ میں فاطمہ کا والد۔۔۔
اور پھر کچھ دیر تک فون کان کے ساتھ لگائے سنتا رہا اس دوران اس کے مسکراتے چہرے پر افسردگی بسیرا کرتی گئی۔ اور آخر کار اختر  کا باپ دل پر ہاتھ رکھے نیچے گر پڑا۔اختر کو کچھ پتا نہ تھا کے آگے سے کیا جواب ملا تھااس کے سامنے اس کا زمین پر پڑا تھا۔ اختر نے فوراً باپ کو اٹھایا اور ہسپتال لے گیا مگر دم رکشے میں ہی ٹوٹ چکا تھا۔بے  یارو مددگار اختر نے بابا کو مردہ خانے میں چھوڑ کر بھاگتا ہوا  ایک دکان پر گیا اور دوبارہ بہن کا ہاں فون کیا۔ جواب سن کر اختر کو دل کا دورہ تو نہ پڑا مگر حواس باختہ ہو کر زمین پر بیٹھ گیا۔
سچ ہے۔۔؟؟ کیا واقعی۔۔؟؟ اوہ  میرے خدایا یہ کیا ہو گیا۔۔۔!
طرح طرح کے سوال اختر  کے دماغ میں شور مچا رہے تھے۔ ایک لمحے کو تو اس نے اپنے ہاتھ پر زور سے کاٹا کہ شاید آنکھ کھل جائے، مگر آنکھ نے تو اب بند ہونا تھا۔ کئی آنکھیں بند ہو چکی تھیں۔ سب کچھ ایک دھماکے میں ختم ہو چکا تھا۔ اختر تھر تھراتے جسم کے ساتھ مردہ خانے پہنچااور صبح اپنے والد کی آخری مذہبی رسومات ادا کیں۔دوسرے دن اختر کو خبر ملی کہ دھماکے میں بچے ہوئے افراد کومختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ اختر اسی وقت لاہور کے لیے روانہ ہوا۔ بہت ہاتھ پیر مارے مگر اب اس کی لاڈو نے شاید کبھی نہ ملنا تھا۔
سہما ہوا اختر دل میں چپ کا شور لیے واپس گھر آیا اوردوسرے ہی دن صبح سویرے کراچی کو نکل گیا جہاں وہ نوکری کیا کرتا تھا اور ہمیشہ کے لیے  وہیں کا ہو گیا۔وقت کے ساتھ ساتھ اختر کے زخم بھرتے گئے اور ایک دن پھر سے اس کی زندگی کی گاڑی اسی طرح چل پڑی کہ جیسے کبھی رکی ہی نہ تھی۔ کچھ عرصے میں اختر کا ٹرانسفر لاہور ہوگیا۔ اختر کے دوستوں کا حلقہ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا جن میں اکثر اس کے وہ اچھے دوست تھے  جن کے ساتھ پہلے کبھی کبھار پھر  اکثر اور پھر دن میں اکثر  سگریٹ نوشی  اور شراب جیسی دلفریب و صحت بخش  عادات اس کا مشغلہ بن گئی تھیں۔ہفتے میں ایک آدھ بار اپنے دوستوں کے ہمراہ غریبنیوں کے گھروں کو جاتا اور دل و جان سے سب مل کر ان غریبنیوں کی خدمت کرتے اور چند روپے بھی دیتے جن سے وہ  غریبنیاں اپنا پیٹ پالتی تھیں۔ان میں کچھ غریب مائیں بھی شامل تھیں جو دن دن یا رات میں ان گھروں میں رہتی تھیں اور باقی کا وقت اپنے بچوں کے ساتھ جھونپڑوں میں یا مٹی کے گھروندوں میں گزارتی تھیں۔
ایک روز اپنی محفل  کے بعد اختر اپنے دوستوں کے ہمراہ ایک گھر میں جاپہنچا۔ہدیہ طے کرنے کے بعد ہر کوئی اپنے اپنے کمروں میں چلاگیا۔ پھر پورا ایک گھنٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختر حسب معمو ل ہاتھ میں غریبنی کی نشانی لیے دوستوں کے ساتھ گھر پہنچا اور سب سوگئے۔
دوسرے روز دن میں سب  اٹھے تو سب نے اپنی اپنی روداد سنائی اور خوب شغل میلا لگایا۔ اختر کی باری آئی تو ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ غریبنی خدمت کرنے ہی نہیں دے رہی تھی پر میں نے جب پیسے نہ دینے اور گھر کی سر پرست سے شکایت کرنے کی بات کی تو فٹ سے آنکھیں باند کر کے لیٹ گئی اور پھر میں نے خوب خدمت کی۔ سب ہنسنے لگ گئے۔ 


دوستوں کو رخصت کرنے کے بعد اختر اپنے کمرے میں گیا اور رات والی نشانی لے کر اپنی الماڑی میں رکھ کر دروازہ بند کیا ہی تھاکہ اسی دوران اسے ایک تحفہ یاد آیا۔اختر دل پر ہاتھ رکھ کر گر پڑا۔ 

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

Blogroll