12 اگست، 2013

اب تک جو اعتبار میں آیا نہیں ہے تُو : رفیع رضا

اب تک جو اعتبار میں آیا نہیں ہے تُو
پھر تو کسی شمار میں آیا نہیں ہے تُو

بس جان کے زیاں پہ ترے ہوش اُڑ گئے
کیا پہلے ، کاروبار میں آیا نہیں ہے تُو

اب تک رُکا ہوا اُسی حیرت کدے میں ہے
لگتا ہے پھر خُمار میں آیا نہیں ہے تُو

وحشت کے بھی اُصول ہیں تُجھکو خبر نہیں
شاید کہ اس قطار میں آیا نہیں ہے تُو

مٹی بکھیرنے کا یہ موسم نہیں ہے دوست
اچھا ہوا بہار میں آیا نہیں ہے تُو

دُشمن سے ہی لڑا ہے ابھی خُود سے تُو نہیں
میدانِ کار زار میں آیا نہیں ہے تُو

لایا گیا تھا گھیر کے تُجھ کو جُنوں کے پاس
پھر اپنے اختیار میں آیا نہیں ہے تُو

باہر سے سُن رہا ہے الاؤ کی گُفتگو
در اصل بزمِ یار میں آیا نہیں ہے تُو

گردش ہے تیز تر تو رضا اُس کا کیا گلہ
کیا وقت کے فشار میں آیا نہیں ہے تُو

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

Blogroll