وقاص مغیرہ اقبال
بچے!
وہ معصوم سے بچے
جن کاان کی ماں کے سوا ، کوئی نہیں ہے دنیا میں
دو معصوم سے بچے، ننھے سے وہ بچے
پھر یوں ہوا رمضان آیا
نیکیاں خوشیاں ساتھ وہ لایا
بچوں نے بھی روزہ رکھا
عقیدت جو رمضان سے تھی
و قت افطاری آن پہنچا
سامان لینے افطاری کا ، گھر سے باہر جا نکلی ماں
کھجور اور اسکی گٹلی سامان تھا اس کا افطاری کا
گھر کی جانب رواں دواں، ہاتھوں میں سامان لیے
اسی لمحے! تیز رفتار گولی چیرتے ہوئے سینا ماں کا،جا گرتی ہے دور کہیں
اور پھر۔۔۔
ماں کی لاش، وہ تنہا لاش، لاوارث لاش
سڑک پر گھنٹوں پڑی رہتی ہے کہ منتظر
منتظر وہ لاش کہ کب اٹھایا جائے
قبر میں دفنایا جائے
اور دوسری طرف وہ معصوم ، پیارے پیارے ،ننھے مننھے بچے
جن کاان کی ماں کے سوا ، کوئی نہیں ہے دنیا میں
بھوکے ایسے کہ جہنم جیسے، پیاس ایسی ک صحرا ہو بہت
انتظار میں بیٹھے کہ کب، آئے گی ماں، کھانا لائے گی ماں
مغرب سے عشا ء ہوتی ہے کہ لوگ تراویح کو نکلتے چلے
مگر وہ دو منتظر بچے۔۔۔!
تھک ہار کر ننھی پری، بہن سے اپنی کہتی ہے
باجی! لوگ تراویح کو چلے گئے اور ہم نے ابھی تک افطاری نہیں کی
اور پھر کنڈی گھر کی بجتی ہے کہ ننھی پری مسکرا اٹھی
خوش ایسے کہ کوئی صدیوں سے بھوکا ایک نوالے کو دیکھ کر کھلکھلا اٹھے
بھاگ کر دروازہ ایسے کھولا کہ جیسے کسی ریس کی کھلاڑی
چار آدمی ایک لاش لئیے کھڑے ہیں دروازے پر
وہ۔۔۔ لاوارث لاش!
کہ جس لاوارث لاش کے دو لاواث ورثاء
بچی ماں کے پاس گئی، چپکے سے کانوں میں بولا
امی اٹھ جاؤ بھی اب، امی کھانا دے دو نا، امی بھوک لگی ہے بہت
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔