25 جولائی، 2013

کیسے آنا ہوا۔۔۔؟؟

جیسے ہی میں جلالپور پیروالہ کی حدود میں داخل ہوا‘ تا حد نگاہ گاڑیوں کی طویل قطار نظر آئی۔ ایک لمحے کو تو یوں گماں ہوا کہ CNG کیلئے لائن میں لگی ہیں‘ مگر دوسرے ہی لمحے دماغ نے تھوڑا کام کرنا شروع کیا تو یاد آیا کہ گلزار مصطفی پارک کے پاس تو کوئی CNG اسٹیشن ہی نہیں ہے۔ میں ذرا چونک سا گیا۔ الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ لائن میں لگی گاڑیوں میں سب سے پچھلی گاڑی میں‘ میں سوار تھا۔
’’ٹِیٹ۔ ٹِیٹ۔ پاں پانپ۔۔۔۔‘‘ بس یہی آوازیں سننے کو مل رہی تھیں۔ ڈرائیور نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی طرح گاڑی قطار توڑ کر ایک طرف نکال لی اور یوں ہمارا سفر پھر سے جاری و ساری ہو گیا پارک سے لے کر جلالپور پبلک سکول تک قطار لگی ہوئی تھی۔ پہلے نمبر پر کھڑی گاڑی میں ایک بہت معروف سیاسی شخصیت کا ’’دیدار‘‘ ہوا۔ ایک لمحے کو تو غصہ امڈ آیا مگر دوسرے ہی لمحے اپنے اعصاب پر کنٹرول کرتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ میں نے کچھ الفاظ بڑبڑائے‘ جنہیں بیان کرنا میں قطعی پسند نہیں کروں گا۔
حیرت کی بات تو یہ تھی کہ یہ سیاسی لیڈر پچھلے پانچ سال میں جلالپور پیروالہ کی حدود میں پہلی مرتبہ نمودار ہوا اور اس سے بڑھ کر حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم پھر بھی ان کا بڑے پروٹوکول کے ساتھ خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کے آنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے سیاسی جلسوں میں بھی عوام کا میلہ لگا رہتا ہے اب کی بار میں بھی بڑا خواہشمند ہوں کہ میں ان کے جلسے میں شامل ہوں اور ان سے ایک سوال کروں۔
’’خیریت ہے سر۔۔۔ کیسے آنا ہوا؟؟
’’اوہ۔۔ اچھا۔۔۔ الیکشن آ گئے ہیں۔۔۔ بہت شکریہ سر۔۔۔!‘‘
اور یہ کہہ کر بیٹھ جاؤں۔ میں جانتا ہوں اس سوال کے بدلے وہاں بیٹھے سینکڑوں مجھ جیسے لوگوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے گی کیونکہ ہماری عوام کو بجلی کے کھمبے‘ بجلی کی تاریں اور سڑکیں چاہئیں جن میں سے کچھ نہ کچھ ان کو ہر پانچ سال بعد مل جاتا ہے۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ ان سیاسی حضرات کے کچھ اور بھی فرائض ہوتے ہیں میرے خیال میں سڑک اور بجلی کی بجائے ہمارے اندر تعلیم کا رجحان بڑھا دیا جائے تو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا کہ ہر پانچ سال بعد ہم کچھ کھمبے‘ بجلی کی تاروں اور سڑکوں کیلئے ہی ووٹ دیتے رہیں گے؟؟

وقاص مغیرہ اقبال

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

Blogroll