26/07/2013 جمعرات 16 رمضان المبارک
تین کنچے ایک نئے ساتھی ‘ حافظ وقاص کے ہمراہ سکول کی جانب رواں دواں تھے کہ جناب غوری صاحب کا حکم نامہ بذریعہ دستی ہاتف موصول ہوا کہ کل کی غیر حاضری کا جرمانہ ‘ مئے دورِ جدید کی ایک سب سے بڑی جسامت کی مینا کی صورت لیتے آنا۔ اسی غم میں صفِ ماتم بچھا ئے ہم سکول کے گیٹ پر پہنچے۔ مسکراہٹوں کا دروازہ کھلا اور موصوف راقم‘ جناب مجتبیٰ صاحب کے حضور تسلیمات عرض کرتا ہوا اندرداخل ہوگیا۔ چھت پر پہنچ کر علی عمار یاسر سے بالواسطہ رابطہ کر کے جلد پہنچنے کی تاکید کی اور خود ‘رو بہ قبلہ (قبلہِ محفل) ہو کر بیٹھ گیا۔حافظ وقاص کو محفل کے اغراض و مقاصد اور معاشی اعتبار سے خونخوار اصول ( مبلغ 20/- روپے روزانہ بہ عوض مینائے دورِ جدید) سے روشناس کرایا۔ اتنے میں محترم علی عمار یاسر بھی آن پہنچے۔
آج علی کی طبیعت پر ناسازی کا گمان گزرا۔ اول تو پہنچتے ہی حضور نے حقیر فقیر ‘ پر تقصیر ‘ بندہ ناداں‘ ہیچ مداں‘ مسکین راقم کو کھڑی تحسین ( سٹینڈنگ ایوی اے شن) دے ماری ( گویا کہہ رہے ہوں‘ میاں! میری تخلیق پر یہ بعینہ واپس نہ ملی تو اگلی ملاقات اکیلے میں ہوگی)۔ دوم یہ کہ حضور والا نے اعلان کر ڈالا کہ آج بوتل ان کی طرف سے ہوگی........ عوام الناس کو سکتہ آگیا۔سانس اکھڑنے لگ گئے ۔ خواب کا گمان زور پکڑنے لگا۔ مگر ان کا اعلان درست تھا۔ حسب معمول رووف صاحب ہی گلاس دھو لائے اور میں ہی بوتل لے کر آیا( اس امتیازی سلوک پر ہر دو مظلومین کی طرف سے جلد احتجاج ریکارڈ کرایا جائے گا)
محفل انتخاب کی طرف بڑھی ۔ عبدالرووف صاحب نے ایک نہایت ہی عمدہ نظم سے آغاز لیا ۔ انداز بیاں کی انفرادیت نے نظم میں جان ہی ڈال دی۔
ﯾﮩﯽ ﻭﻋﺪﮦ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﺎﮞ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺧﻮﺵ ﮨﯽ ﺭﮨﻨﺎ ﮨﮯ
ﻟﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺩﯾﮑھ ﻟﻮ ﺁ ﮐﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺗﻢ
ﯾﮧ ﮐﺘﻨﯽ ﺷﻮﺥ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺗﻢ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻏﻢ ﺍﮔﺮ ﺁﯾﺎ
ﺍﺳﮯ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﺳﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺗﻢ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﭘﺮﺳﮑﻮﮞ ﮨﻮﮔﺎ
ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﻭﮦ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﭘﻮﺭﺍ
ﻣﮕﺮ ﺍﮎ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﻨﯽ ﮨﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﻭﻗﺖ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ
ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﭘﮍﮬﻨﺎ
ﺗﻤﮭﯿﮟﻣﺤﺴﻮﺱ ﺗﻮ ﮨﻮﮔﺎ
ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻠﺨﯽ ﺑﮭﺮﺍ ﻟﮩﺠﮧ
ﮐﮩﯿﮟ ﭘﮧ ﺳﺮﺩ ﺳﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ
ﮐﮩﯿﮟ ﭘﮧ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺟﮭﯿﻠﯿﮟ
ﮐﮩﯿﮟ ﻟﮩﺠﮯ ﮐﯽ ﮐﮍﻭﺍﮨﭧ
ﺳﻨﻮ
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﺗﻮ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ
ﻣﯿﺮﺍ ﮨﺮ ﻟﻔﻆ ﺭﻭﭨﮭﺎ ﮨﮯ
اس کے بعد آج کے مہمان‘ جناب حافظ وقاص صاحب نے اپنی پسند کی ایک غزل سنائی ۔ حافظ وقاص الفاظ کو بڑے منفرد انداز سے چھوڑتے ہیں ۔ڈھیلے ڈھیلے الفاظ ہونٹوں سے پھسل کر کانوں تک پہنچتے پہنچتے کافی ستایش سمیٹ چکے ہوتے ہیں۔
ان کے بعد باری آئی وقاص مغیرہ اقبال کی ۔وقاص غالب کی ایک مشہور غزل کے تین اشعار سنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔مگر ابھی پہلا شعر ہی پیش ہوا تھا
تین کنچے ایک نئے ساتھی ‘ حافظ وقاص کے ہمراہ سکول کی جانب رواں دواں تھے کہ جناب غوری صاحب کا حکم نامہ بذریعہ دستی ہاتف موصول ہوا کہ کل کی غیر حاضری کا جرمانہ ‘ مئے دورِ جدید کی ایک سب سے بڑی جسامت کی مینا کی صورت لیتے آنا۔ اسی غم میں صفِ ماتم بچھا ئے ہم سکول کے گیٹ پر پہنچے۔ مسکراہٹوں کا دروازہ کھلا اور موصوف راقم‘ جناب مجتبیٰ صاحب کے حضور تسلیمات عرض کرتا ہوا اندرداخل ہوگیا۔ چھت پر پہنچ کر علی عمار یاسر سے بالواسطہ رابطہ کر کے جلد پہنچنے کی تاکید کی اور خود ‘رو بہ قبلہ (قبلہِ محفل) ہو کر بیٹھ گیا۔حافظ وقاص کو محفل کے اغراض و مقاصد اور معاشی اعتبار سے خونخوار اصول ( مبلغ 20/- روپے روزانہ بہ عوض مینائے دورِ جدید) سے روشناس کرایا۔ اتنے میں محترم علی عمار یاسر بھی آن پہنچے۔
آج علی کی طبیعت پر ناسازی کا گمان گزرا۔ اول تو پہنچتے ہی حضور نے حقیر فقیر ‘ پر تقصیر ‘ بندہ ناداں‘ ہیچ مداں‘ مسکین راقم کو کھڑی تحسین ( سٹینڈنگ ایوی اے شن) دے ماری ( گویا کہہ رہے ہوں‘ میاں! میری تخلیق پر یہ بعینہ واپس نہ ملی تو اگلی ملاقات اکیلے میں ہوگی)۔ دوم یہ کہ حضور والا نے اعلان کر ڈالا کہ آج بوتل ان کی طرف سے ہوگی........ عوام الناس کو سکتہ آگیا۔سانس اکھڑنے لگ گئے ۔ خواب کا گمان زور پکڑنے لگا۔ مگر ان کا اعلان درست تھا۔ حسب معمول رووف صاحب ہی گلاس دھو لائے اور میں ہی بوتل لے کر آیا( اس امتیازی سلوک پر ہر دو مظلومین کی طرف سے جلد احتجاج ریکارڈ کرایا جائے گا)
محفل انتخاب کی طرف بڑھی ۔ عبدالرووف صاحب نے ایک نہایت ہی عمدہ نظم سے آغاز لیا ۔ انداز بیاں کی انفرادیت نے نظم میں جان ہی ڈال دی۔
ﯾﮩﯽ ﻭﻋﺪﮦ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﺎﮞ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺧﻮﺵ ﮨﯽ ﺭﮨﻨﺎ ﮨﮯ
ﻟﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺩﯾﮑھ ﻟﻮ ﺁ ﮐﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺗﻢ
ﯾﮧ ﮐﺘﻨﯽ ﺷﻮﺥ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺗﻢ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻏﻢ ﺍﮔﺮ ﺁﯾﺎ
ﺍﺳﮯ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﺳﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺗﻢ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﭘﺮﺳﮑﻮﮞ ﮨﻮﮔﺎ
ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﻭﮦ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﭘﻮﺭﺍ
ﻣﮕﺮ ﺍﮎ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﻨﯽ ﮨﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﻭﻗﺖ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ
ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﭘﮍﮬﻨﺎ
ﺗﻤﮭﯿﮟﻣﺤﺴﻮﺱ ﺗﻮ ﮨﻮﮔﺎ
ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻠﺨﯽ ﺑﮭﺮﺍ ﻟﮩﺠﮧ
ﮐﮩﯿﮟ ﭘﮧ ﺳﺮﺩ ﺳﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ
ﮐﮩﯿﮟ ﭘﮧ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺟﮭﯿﻠﯿﮟ
ﮐﮩﯿﮟ ﻟﮩﺠﮯ ﮐﯽ ﮐﮍﻭﺍﮨﭧ
ﺳﻨﻮ
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﺗﻮ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ
ﻣﯿﺮﺍ ﮨﺮ ﻟﻔﻆ ﺭﻭﭨﮭﺎ ﮨﮯ
اس کے بعد آج کے مہمان‘ جناب حافظ وقاص صاحب نے اپنی پسند کی ایک غزل سنائی ۔ حافظ وقاص الفاظ کو بڑے منفرد انداز سے چھوڑتے ہیں ۔ڈھیلے ڈھیلے الفاظ ہونٹوں سے پھسل کر کانوں تک پہنچتے پہنچتے کافی ستایش سمیٹ چکے ہوتے ہیں۔
ان کے بعد باری آئی وقاص مغیرہ اقبال کی ۔وقاص غالب کی ایک مشہور غزل کے تین اشعار سنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔مگر ابھی پہلا شعر ہی پیش ہوا تھا
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے
یکلخت علی عمار یاسر اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے موبائل کو منصفین( محفل میں شریک دیگر صاحبان) کی طرف لہراتے ہوئے بولے ۔۔۔ میں آج یہی غزل سنانے جا رہا تھا ۔۔یہ دیکھیے میں نے ڈھونڈ کے رکھی ہوئی ہے۔۔ منصفین نے دلاسہ دیا کہ یہ صاحب محض تین اشعار پیش کریں گے باقی کی غزل جناب سے سنی جائے گی۔
بہرکیف، تین اشعار پڑھے گئے ۔ آخری شعر پر محفل نے آسمان چھت پر دے مارا۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
پھر سات افراد کی 14نگاہیں مجھ مسکین کے خوفزدہ چہرے پرآن رکیں ۔ مسکین نے آل تو جلال تو کا ورد کر کے ایک عدد آزاد نظم جڑ دی
مجھے زندگی کی کتاب میں
کوئی ایسا حرف نہ مل سکا
جسے مثلِ گل کا خطاب دوں
جسے چاندنی کی سی تاب دوں
جسے ڈھونڈ کر‘ جسے کھوج کر
رخِ آسماں پہ سجا بھی دوں
میرے خونِ دل کی نگارشیں
میرے روح تک کے فشار بھی
یہاں علم وفن کی دکان پر
بڑے سستے داموں سے بک گئے
مجھے توڑ کر‘ مجھے پھوڑ کر
میرے دوستوں نے جلا دیا
رہ زندگی کے غبار میں
میری راکھ تک کو اڑا دیا
مجھے پھر بھی کوئی گلہ نہیں
جو ملا نہیں سو ملا نہیں
خیر سے داد و تحسین کے معاملے میں یار لوگ سب کے سب زندہ دل واقع ہوئے ہیں ۔ سو بے تحاشہ بخش دی۔ ہم نے بھی سنبھال کر جیب میں ڈال لی۔اب نگاہیں علی عمار یاسر کی جانب اٹھیں۔ علی عمار یاسر نے اپنے مخصوص دھیمے انداز میں چچا جان کی غزل پیش کی ۔
حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے
اس سے میرا مۂ خورشید جمال اچّھا ہے
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچّھا ہے
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچّھا ہے بے
طلب دیں تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچّھا ہے
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے
دیکھیے پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے
ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچّھا ہے
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچّھا ہے وہ جس کا کہ میٰل اچّھا ہے
ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے
یکلخت علی عمار یاسر اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے موبائل کو منصفین( محفل میں شریک دیگر صاحبان) کی طرف لہراتے ہوئے بولے ۔۔۔ میں آج یہی غزل سنانے جا رہا تھا ۔۔یہ دیکھیے میں نے ڈھونڈ کے رکھی ہوئی ہے۔۔ منصفین نے دلاسہ دیا کہ یہ صاحب محض تین اشعار پیش کریں گے باقی کی غزل جناب سے سنی جائے گی۔
بہرکیف، تین اشعار پڑھے گئے ۔ آخری شعر پر محفل نے آسمان چھت پر دے مارا۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
پھر سات افراد کی 14نگاہیں مجھ مسکین کے خوفزدہ چہرے پرآن رکیں ۔ مسکین نے آل تو جلال تو کا ورد کر کے ایک عدد آزاد نظم جڑ دی
مجھے زندگی کی کتاب میں
کوئی ایسا حرف نہ مل سکا
جسے مثلِ گل کا خطاب دوں
جسے چاندنی کی سی تاب دوں
جسے ڈھونڈ کر‘ جسے کھوج کر
رخِ آسماں پہ سجا بھی دوں
میرے خونِ دل کی نگارشیں
میرے روح تک کے فشار بھی
یہاں علم وفن کی دکان پر
بڑے سستے داموں سے بک گئے
مجھے توڑ کر‘ مجھے پھوڑ کر
میرے دوستوں نے جلا دیا
رہ زندگی کے غبار میں
میری راکھ تک کو اڑا دیا
مجھے پھر بھی کوئی گلہ نہیں
جو ملا نہیں سو ملا نہیں
خیر سے داد و تحسین کے معاملے میں یار لوگ سب کے سب زندہ دل واقع ہوئے ہیں ۔ سو بے تحاشہ بخش دی۔ ہم نے بھی سنبھال کر جیب میں ڈال لی۔اب نگاہیں علی عمار یاسر کی جانب اٹھیں۔ علی عمار یاسر نے اپنے مخصوص دھیمے انداز میں چچا جان کی غزل پیش کی ۔
حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے
اس سے میرا مۂ خورشید جمال اچّھا ہے
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچّھا ہے
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچّھا ہے بے
طلب دیں تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچّھا ہے
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے
دیکھیے پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے
ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچّھا ہے
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچّھا ہے وہ جس کا کہ میٰل اچّھا ہے
ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
محفل عش عش کر اٹھی۔ پڑھی تو سب نے بہت بار ہوگی، مگر جس انداز میں علی نے سنائی ، گمان گزرا کہ آج پہلی بار واسطہ پڑا ہے۔ ہر ہر شعر پر ....ہائے ۔۔۔۔ مار ڈالا۔۔۔۔ ظالم۔ ۔۔ آہ۔۔۔۔ جیسے دردناک نعرے بلند ہوتے رہے۔
نویدغوری صاحب پر بڑی دیر سے واقعات کا الہام چل رہا تھا۔ چچا غالب سے ٹیلی پیتھک رابطے کے باعث ان کے احاطہِ ادراک میں غالب کی غیر مطبوعہ شاعری ‘ ان کہے واقعات اور عالم برزخ سے تازہ کلام مسلسل وارد ہوتا رہتا ہے۔ ویر کے گھوڑی چڑھنے کی خوشی ہو یا گوری رنگت کے پیمانہِ الفت و محبت نہ ہونے پر دلائل ۔۔۔ ہمہ قسم کی گفتگو سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جنت میں پہنچ کر چچا اخلاق باختہ ہوگئے ہیں۔
محفل‘ کعبہِ محفل کی جانب مڑی۔ انہوں نے نون ۔ میم ۔ راشد کی شاہکار نظم دے ماری۔
زندگی سے ڈرتے ہو؟؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں! آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے،
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے!
’ان کہی‘ سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی، اُس گھڑی سے ڈرتے ہو
آس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!
پہلے بھی تو گزرے ہیں،
دور نارسائی کے، ’بے ریا‘ خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی
یہ شبِ زباں بندی، ہے رہِ خدا وندی!
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اُٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں،
روشنی سے ڈرتے ہو!
شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر
اژدہامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
زات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے!
آدمی چھلک آٹھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں ابھی تو تم بھی ہو، ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں،
تم ابھی سے ڈرتے ہو!
الفاظ پر دباﺅ‘ ٹھہراﺅ اور زیر وبم کا وہ خوبصور ت امتزاج کہ حاضرین نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اس نظم کے اختتام پر محفل نے متفقہ طور پر ”زندگی سے ڈرتے ہو“ از نجم الا صغر کا بھی مطالبہ کر ڈالا۔ چوتھی بار بھی ‘ مجتبیٰ صاحب کی آواز میں گونجنے والی اس نظم کے ہر ہر مصرعے پر واہ واہ گونجتی رہی ۔ بلا شبہ اس نظم کو ان سے زیادہ اچھے انداز میں کوئی نہیں پڑھ سکتا۔
اب تخلیقات کی باری آئی ۔ رووف کی طرف سے یہ اشعار پیش کیے گئے اور خوب سراہے گئے:
تم کو بس جانا ہی تھا‘ یوں ہم کو تڑپانا ہی تھا
کیوں مانوں یہ جی کی بپتاکہ تم کو لوٹ کے آنا ہی تھا
کیوں اٹھاﺅں ناز تمہارے ‘ کیوں کر لیے کشکول پھروں
تم کو لوٹ آنا ہی تھا ‘ پھر یوں چھوڑ کے جانا ہی تھا؟؟؟
حافظ وقاص صاحب کی طرف سے ایک شعر کے بعد وقاص مغیرہ اقبال کی جانب سے ایک عدد انتہائی جاندار تخیل والی نظم پیش کی گئی۔
وہ معصوم سے بچے
جن کاان کی ماں کے سوا ، کوئی نہیں ہے دنیا میں
دو معصوم سے بچے، ننھے سے وہ بچے
پھر یوں ہوا رمضان آیا
نیکیاں خوشیاں ساتھ وہ لایا
بچوں نے بھی روزہ رکھا
عقیدت جو رمضان سے تھی
و قت افطاری آن پہنچا
سامان لینے افطاری کا ، گھر سے باہر جا نکلی ماں
کھجور اور اسکی گٹلی سامان تھا اس کا افطاری کا
گھر کی جانب رواں دواں، ہاتھوں میں سامان لیے
اسی لمحے! تیز رفتار گولی چیرتے ہوئے سینا ماں کا،جا گرتی ہے دور کہیں
اور پھر۔۔۔
ماں کی لاش، وہ تنہا لاش، لاوارث لاش
سڑک پر گھنٹوں پڑی رہتی ہے کہ منتظر
منتظر وہ لاش کہ کب اٹھایا جائے
قبر میں دفنایا جائے
اور دوسری طرف وہ معصوم ، پیارے پیارے ،ننھے مننھے بچے
جن کاان کی ماں کے سوا ، کوئی نہیں ہے دنیا میں
بھوکے ایسے کہ جہنم جیسے، پیاس ایسی ک صحرا ہو بہت
انتظار میں بیٹھے کہ کب، آئے گی ماں، کھانا لائے گی ماں
مغرب سے عشا ء ہوتی ہے کہ لوگ تراویح کو نکلتے چلے
مگر وہ دو منتظر بچے۔۔۔!
تھک ہار کر ننھی پری، بہن سے اپنی کہتی ہے
باجی! لوگ تراویح کو چلے گئے اور ہم نے ابھی تک افطاری نہیں کی
اور پھر کنڈی گھر کی بجتی ہے کہ ننھی پری مسکرا اٹھی
خوش ایسے کہ کوئی صدیوں سے بھوکا ایک نوالے کو دیکھ کر کھلکھلا اٹھے
بھاگ کر دروازہ ایسے کھولا کہ جیسے کسی ریس کی کھلاڑی
چار آدمی ایک لاش لئیے کھڑے ہیں دروازے پر
وہ۔۔۔ لاوارث لاش!
کہ جس لاوارث لاش کے دو لاواث ورثاء
بچی ماں کے پاس گئی، چپکے سے کانوں میں بولا
امی اٹھ جاؤ بھی اب، امی کھانا دے دو نا، امی بھوک لگی ہے بہت
- See more at: http://kanchay.blogspot.com/2013/07/lawaaris.html#sthash.1h4grtIg.dpufبچے!
وہ معصوم سے بچے
جن کاان کی ماں کے سوا ، کوئی نہیں ہے دنیا میں
دو معصوم سے بچے، ننھے سے وہ بچے
پھر یوں ہوا رمضان آیا
نیکیاں خوشیاں ساتھ وہ لایا
بچوں نے بھی روزہ رکھا
عقیدت جو رمضان سے تھی
و قت افطاری آن پہنچا
سامان لینے افطاری کا ، گھر سے باہر جا نکلی ماں
کھجور اور اسکی گٹلی سامان تھا اس کا افطاری کا
گھر کی جانب رواں دواں، ہاتھوں میں سامان لیے
اسی لمحے! تیز رفتار گولی چیرتے ہوئے سینا ماں کا،جا گرتی ہے دور کہیں
اور پھر۔۔۔
ماں کی لاش، وہ تنہا لاش، لاوارث لاش
سڑک پر گھنٹوں پڑی رہتی ہے کہ منتظر
منتظر وہ لاش کہ کب اٹھایا جائے
قبر میں دفنایا جائے
اور دوسری طرف وہ معصوم ، پیارے پیارے ،ننھے مننھے بچے
جن کاان کی ماں کے سوا ، کوئی نہیں ہے دنیا میں
بھوکے ایسے کہ جہنم جیسے، پیاس ایسی ک صحرا ہو بہت
انتظار میں بیٹھے کہ کب، آئے گی ماں، کھانا لائے گی ماں
مغرب سے عشا ء ہوتی ہے کہ لوگ تراویح کو نکلتے چلے
مگر وہ دو منتظر بچے۔۔۔!
تھک ہار کر ننھی پری، بہن سے اپنی کہتی ہے
باجی! لوگ تراویح کو چلے گئے اور ہم نے ابھی تک افطاری نہیں کی
اور پھر کنڈی گھر کی بجتی ہے کہ ننھی پری مسکرا اٹھی
خوش ایسے کہ کوئی صدیوں سے بھوکا ایک نوالے کو دیکھ کر کھلکھلا اٹھے
بھاگ کر دروازہ ایسے کھولا کہ جیسے کسی ریس کی کھلاڑی
چار آدمی ایک لاش لئیے کھڑے ہیں دروازے پر
وہ۔۔۔ لاوارث لاش!
کہ جس لاوارث لاش کے دو لاواث ورثاء
بچی ماں کے پاس گئی، چپکے سے کانوں میں بولا
امی اٹھ جاؤ بھی اب، امی کھانا دے دو نا، امی بھوک لگی ہے بہت
بچے!
وہ معصوم سے بچے
جن کاان کی ماں کے سوا ، کوئی نہیں ہے دنیا میں
دو معصوم سے بچے، ننھے سے وہ بچے
پھر یوں ہوا رمضان آیا
نیکیاں خوشیاں ساتھ وہ لایا
بچوں نے بھی روزہ رکھا
عقیدت جو رمضان سے تھی
و قت افطاری آن پہنچا
- See more at: http://kanchay.blogspot.com/2013/07/lawaaris.html#sthash.1h4grtIg.dpuf
وہ معصوم سے بچے
جن کاان کی ماں کے سوا ، کوئی نہیں ہے دنیا میں
دو معصوم سے بچے، ننھے سے وہ بچے
پھر یوں ہوا رمضان آیا
نیکیاں خوشیاں ساتھ وہ لایا
بچوں نے بھی روزہ رکھا
عقیدت جو رمضان سے تھی
و قت افطاری آن پہنچا
سامان لینے افطاری کا ، گھر سے باہر جا نکلی ماں
کھجور اور اسکی گٹلی سامان تھا اس کا افطاری کا
گھر کی جانب رواں دواں، ہاتھوں میں سامان لیے
اسی لمحے! تیز رفتار گولی چیرتے ہوئے سینا ماں کا،جا گرتی ہے دور کہیں
اور پھر۔۔۔
ماں کی لاش، وہ تنہا لاش، لاوارث لاش
سڑک پر گھنٹوں پڑی رہتی ہے کہ منتظر
منتظر وہ لاش کہ کب اٹھایا جائے
قبر میں دفنایا جائے
اور دوسری طرف وہ معصوم ، پیارے پیارے ،ننھے مننھے بچے
جن کاان کی ماں کے سوا ، کوئی نہیں ہے دنیا میں
بھوکے ایسے کہ جہنم جیسے، پیاس ایسی ک صحرا ہو بہت
انتظار میں بیٹھے کہ کب، آئے گی ماں، کھانا لائے گی ماں
مغرب سے عشا ء ہوتی ہے کہ لوگ تراویح کو نکلتے چلے
مگر وہ دو منتظر بچے۔۔۔!
تھک ہار کر ننھی پری، بہن سے اپنی کہتی ہے
باجی! لوگ تراویح کو چلے گئے اور ہم نے ابھی تک افطاری نہیں کی
اور پھر کنڈی گھر کی بجتی ہے کہ ننھی پری مسکرا اٹھی
خوش ایسے کہ کوئی صدیوں سے بھوکا ایک نوالے کو دیکھ کر کھلکھلا اٹھے
بھاگ کر دروازہ ایسے کھولا کہ جیسے کسی ریس کی کھلاڑی
چار آدمی ایک لاش لئیے کھڑے ہیں دروازے پر
وہ۔۔۔ لاوارث لاش!
کہ جس لاوارث لاش کے دو لاواث ورثاء
بچی ماں کے پاس گئی، چپکے سے کانوں میں بولا
امی اٹھ جاؤ بھی اب، امی کھانا دے دو نا، امی بھوک لگی ہے بہت
- See more at: http://kanchay.blogspot.com/2013/07/lawaaris.html#sthash.1h4grtIg.dpuf
وہ معصوم سے بچے
جن کاان کی ماں کے سوا ، کوئی نہیں ہے دنیا میں
دو معصوم سے بچے، ننھے سے وہ بچے
پھر یوں ہوا رمضان آیا
نیکیاں خوشیاں ساتھ وہ لایا
بچوں نے بھی روزہ رکھا
عقیدت جو رمضان سے تھی
و قت افطاری آن پہنچا
سامان لینے افطاری کا ، گھر سے باہر جا نکلی ماں
کھجور اور اسکی گٹلی سامان تھا اس کا افطاری کا
گھر کی جانب رواں دواں، ہاتھوں میں سامان لیے
اسی لمحے! تیز رفتار گولی چیرتے ہوئے سینا ماں کا،جا گرتی ہے دور کہیں
اور پھر۔۔۔
ماں کی لاش، وہ تنہا لاش، لاوارث لاش
سڑک پر گھنٹوں پڑی رہتی ہے کہ منتظر
منتظر وہ لاش کہ کب اٹھایا جائے
قبر میں دفنایا جائے
اور دوسری طرف وہ معصوم ، پیارے پیارے ،ننھے مننھے بچے
جن کاان کی ماں کے سوا ، کوئی نہیں ہے دنیا میں
بھوکے ایسے کہ جہنم جیسے، پیاس ایسی ک صحرا ہو بہت
انتظار میں بیٹھے کہ کب، آئے گی ماں، کھانا لائے گی ماں
مغرب سے عشا ء ہوتی ہے کہ لوگ تراویح کو نکلتے چلے
مگر وہ دو منتظر بچے۔۔۔!
تھک ہار کر ننھی پری، بہن سے اپنی کہتی ہے
باجی! لوگ تراویح کو چلے گئے اور ہم نے ابھی تک افطاری نہیں کی
اور پھر کنڈی گھر کی بجتی ہے کہ ننھی پری مسکرا اٹھی
خوش ایسے کہ کوئی صدیوں سے بھوکا ایک نوالے کو دیکھ کر کھلکھلا اٹھے
بھاگ کر دروازہ ایسے کھولا کہ جیسے کسی ریس کی کھلاڑی
چار آدمی ایک لاش لئیے کھڑے ہیں دروازے پر
وہ۔۔۔ لاوارث لاش!
کہ جس لاوارث لاش کے دو لاواث ورثاء
بچی ماں کے پاس گئی، چپکے سے کانوں میں بولا
امی اٹھ جاؤ بھی اب، امی کھانا دے دو نا، امی بھوک لگی ہے بہت
- See more at: http://kanchay.blogspot.com/2013/07/lawaaris.html#sthash.1h4grtIg.dpufنظم میں منظر نگاری بہت خوب کی گئی تھی۔ ہر چند نظم کافی آزاد تھی مگر اس میں منظر ایسا باندھا گیا تھا کہ ایک لمحے کو پوری محفل کو سانپ سونگھ گیا۔اس نظم کے لیے مناسب عنوان کا سوال اٹھا یا گیا تو دوستوں نے”لا وارث“ تجویز کیا۔
وقاص کی اس نظم کے سحر سے نکلنے کے بعد نگاہیں مجھ پر اٹھیں۔ میں نے اپنی ایک دو سال پرانی ‘ لکھنوی طرز کی مسدس پیش کردی ۔ساتھ میں یہ راز بھی کھول دیا کہ اس میں صنعت توشیح استعمال کی گئی تھی۔
حکم قتل ہے ہر سو ‘ کہ ستم کیا ہے میں نے مت آ قریب میرے ‘ کہ ظلم کیا ہے میں نے
یاں خاک و خوں میں خود کو یوں ضم کیا ہے میں نے رودادِ عشقِ دل کو جنم کیا ہے میں نے
اک ریتِ بزدلاں کو ختم کیا ہے میں نے
صورت کو اسکی کل شب ‘ نظم کیا ہے میں نے
حرفِ وفا کو لکھا خون ِ جگر سے یارو ممتا زکر دیا ہے اسکو قمر سے یارو
یاں شب کا زور توڑا نور سحر سے یارو رگ رگ میں اسکو سینچا اپنی نظر سے یارو
اس حسنِ پر فسوں کو رقم کیا ہے میں نے
صورت کو اس کی کل شب‘ نظم کیا ہے میں نے
حرفِ صدا میں بس اک اسی کو ہے پکارا میں نے جنوں میں آکے ‘ اپنی خودی کو مارا
یہ عشق ہی ہے جس نے آکاش سے اتارا رخشندہ ‘خوبصورت ‘ روشن سا اک ستارہ
اس حشر کو حوالہِ قلم کیا ہے میں نے
صورت کو اسکی کل شب نظم کیا ہے میں نے
حق گوئی کی سزا ہے ‘ دامن کفن کیا ہے میرا قصور یہ ہے ‘ اس کو سخن کیا ہے
یادوں کو بویا ‘کاٹا‘ میں نے چمن کیا ہے رسموں کو لا کے میں نے زندہ دفن کیا ہے
اندازِ سخن و گو پہ یہ کرم کیا ہے میں نے
صورت کو اسکی کل شب نظم کیا ہے میں نے
حور وجمال لکھا ‘ حسنِ کمال لکھا مئے خانہ ِ مجسم تیرا جمال لکھا
یاں یہ سوال لکھا ‘ کبھی وہ سوال لکھا رخ یار کو جو لکھا ‘ تو بے مثال لکھا
اقبالِ حسنِ حوراں برہم کیا ہے میں نے
صورت کو اسکی کل شب نظم کیا ہے میں نے
دادو تحسین ملتی رہی۔خصوصاََ مجتبیٰ صاحب نے جس انداز میں تعریف کی جی چاہا چھت سے کود جاﺅں۔فرمانے لگے ‘ یار چھوڑو !ہم شاعری ترک کرتے ہیں۔۔ نعوذ باللہ
علی عمار یاسر۔۔۔ گھر سے سکول آتے آتے ایک عدد نظم لکھ لائے ۔(سکول سے مراد سکول کی وہ عمارت جس کی چھت پر ہم محفل جما کے بیٹھتے ہیں)محفل میں نظم پیش کی گئی۔
انکل جی ‘ چھوڑیں نا سب گاہک ‘ دیکھیں نا میں آئی ہوں
تھی پچھلے برس جو قیمت پوچھی ‘ آج میں پیسے لائی ہوں
انکل جی ! اس عید پہ میں بھی چاند ستارہ پہنوں گی
گوٹی کنارہ لوں گی اور میں سوٹ بھی پیارا پہنوں گی
جو بھی کچھ ہے مجھ کو لینا ‘ لکھ کے سب کچھ لائی ہوں
یہ والا گوٹی کنارا دے دیں
چمکتا ہوا ستارہ دے دیں
سرخ رنگ کی گھڑی اٹھا دیں
وہ گڑیا جو ہے کھڑی‘ لادیں
پونی کچھ وہ بڑی اٹھا دیں
کتنے پیسے انکل جی؟؟
365 ؟365 انکل جی! ؟
پچھلےبرس تو ان سب کا
دو سو پچپن بنتا تھا
ان سب کو سوچتے میں نے
ایک ایک دن بتایا تھا
انکل جی!
یہ سب رکھ لیں!
پچھلے برس سے اب تک میں نے سکے سکے جوڑے ہیں
انکل جی میں چلتی ہوں ‘ پیسے اب بھی تھوڑے ہیں !
واہ یار علی! آپ کا حساس دل امڈ آیا ہے اس نظم میں ۔ میں خود اسے ٹائپ کرتے کرتے آبدیدہ ہو گیا۔) محفل کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ علی کی مغموم صدا” پیسے اب بھی تھوڑے ہیں“ گونج رہی تھی۔ سب ایسے گم صم بیٹھے تھے کہ گویا ہم ہی اُ س معصوم کی ننھی ننھی خواہشوں کے قا تل ہیں جو 80 روپے کم ہونے کے باعث اپنے ایک سال کے شیر خوار بچے جیسے خوابوں کو مار کر اسی دکان میں دفنا گئی۔
اب کے مجتبیٰ صاحب کی باری آئی۔ مجتبیٰ صاحب نے ہاتھ کھڑے کر لیے۔فرمانے لگے‘ بڑی کوشش کی مگر طبیعت مائل ہی نہ ہوئی ۔ یہاں ہم نے نتیجہ نکالا کہ شاعری بھی محبت کی طرح ہوتی ہے۔یہ کی نہیں جاتی‘ ہو جاتی ہے۔ بہر حال ‘ شدید اصرار پر آپ نے اپنی زندگی کا پہلا شعر سنایا۔ ساتویں کلاس میں بھی ہمیشہ کی طرح حضور سالارِ جماعت تھے۔ حساب کا پیپر اچھا نہ ہوا تو استاد محترم نے سزا کے ساتھ جملہ جڑ دیا کہ جناب سے شاعری جتنی کروالو۔۔۔۔ یہاں غالباََ صاحب نے سوچا کے الزام تو لگ ہی چکا ہے سو شاعری بھی ہو ہی جائے۔ سو‘ اس وقت‘ ساتویں کلاس کے ایک طالبعلم نے درج ذیل شعر لکھا
:
میں دل کے زخم ہی تو لکھتاہوں شوخ لفظوں میں
یہ میرا طرزِ تکلم ہے‘ شاعری تو نہیں
اس کے ساتھ ہی کنچے بلاگ کے بارے میں معمولی گفتگو کے بعدمحفل برخاست ہو کر بٹی اور جلالپور کے طول وعرض میں پھیل گئی۔
صہیب مغیرہ صدیقی
27-07-2013
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔