27 جولائی، 2013

کافر

(صہیب مغیرہ صدیقی)

نہ قوس ِقزح نہ بادصبا
نہ خوش خوش ہنستی آنکھیں ہی
نہ مینا‘ محفل ‘مے خانہ‘
مطرب کی صدا نہ باتیں ہی
گل‘ گلشن ‘رنگیں زار ہی کیوں
دنیا کی دمک برساتیں ہی
تری یاد کے آگے ہیچ ہیں سب
سو پھیکے پھیکے لگتے ہیں

بس ایک خزاں کا موسم ہے
جو پیلے پیلے پتوں میں
تری یاد بسائے پھرتاہے
یا شب کے پچھلے پہر ہیں جو
تجھے حاضر ناظر پاتے ہیں
یا یوں کہیے جب راتوں میں
تری یاد کے بادل آتے ہیں
اور تاریکی کے پانو بھی
چھن چھن چھن کر نچ گاتے ہیں
یا وقت قضا کہ جب سانسیں
گھٹ گھٹ گھٹ کر سی سینے میں
تجھے اپنے پاس بلاتی ہیں
یا وہ لمحہ جب حق والے
میرے دل کے کعبے کے اندر
تری یاد کے بت گرانے میں
ناکام و پسا ہوتے ہیں
تب اپنی ذات کے اندر ہی
ہم کافر کافر ہوتے ہیں

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

Blogroll