میں عشق الست پرست ہوں، کھولوں روحوں کے بھید
مرا نام سنہرا سانورا، اک سندرتا کا وید
مری آنکھ قلندر قادری، مرا سینہ ہے بغداد
مرا ماتھا دن اجمیر کا، دل پاک پٹن آباد
میں کھرچوں ناخنِ شوق سے ،اک شبد بھری دیوار
وہ شبد بھری دیوار ہے، یہ رنگ سجا سنسار
میں خاص صحیفہ عشق کا، مرے پنے ہیں گلریز
میں دیپک گر استھان کا، مری لو میٹھی اور تیز
میں پریم بھری اک آتما، جو خود میں دھیان کرے
میں جیوتی جیون روپ کی، جو ہر سے گیان کرے
یہ پیڑ پرندے تتلیاں، مری روح کے سائے ہیں
یہ جتنے گھایل لوگ ہیں، میرے ماں جائے ہیں
میں دور حسد کی آگ سے، میں صرف بھلے کا روپ
مرا ظاہر باطن خیر ہے، میں گیان کی اجلی دھوپ
من مکت ہوا ہر لوبھ سے، اب کیا چنتا؟ کیا دُکھ؟
رہے ہر دم یار نگاہ میں، مرے نینن سکھ ہی سکھ
ہیں ایک سو چودہ سورتیں، بس اک صورت کا نور
وہ صورت سوہنے یار کی، جو احسن اور بھرپور
میں آپ اپنا اوتار ہوں، میں آپ اپنی پہچان
میں دین دھرم سے ماورا، میں ہوں حضرت انسان
(علی زریون)