18 جون، 2014

مٹی گریز کرنے لگی ہے خیال کر - علی زریون


مٹی گریز کرنے لگی ہے خیال کر
اپنا وجود اپنے لیے تو بحال کر

تیرا طلوع تیرے سوا تو کہیں نہیں
اپنے میں ڈوب اپنے ہی اندر زوال کر

اوروں کے فلسفے میں ترا کچھ نہیں چھپا
اپنے جواب کے لیے خود سے سوال کر

پہلے وہ لا تھا مجھ سے الٰہی ہوا ہے وہ
لایا ہوں میں خدا کو خودی سے نکال کر

اس کارگاہ عشق میں سمتوں کا دکھ نہ پال
فکر جنوب اور نہ خوف شمال کر

خواہش سے جیتنا ہے تو مت اس سے جنگ کر
چکھ اس کا ذائقہ اسے چھو کر نڈھال کر

آیا ہے پریم سے تو میں حاضر ہوں صاحبا
لے میں بچھا ہوا ہوں مجھے پائمال کر

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

Blogroll